سوال (26)
کارٹون بنانے کا کیا حکم ہے؟
جواب
کارٹون میں بھی اصل میں ذی روح چيزوں کی نقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لہذا ان کا بھي وہی حکم ہے، جو عام تصاویر، بتوں وغیرہ کا حکم ہے کہ یہ بنانا جائز نہیں ہے ۔
البتہ بعض اہل علم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح ان کے پاس کھیلنے کے لیے گڑیائیں وغیرہ تھيں، اسی طرح بچوں کے لیے کارٹون وغیرہ بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
سوال: ایک بندے کا کام کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ گیمز یا کارٹون وغیرہ کے کریکٹر بناتا ہے اور اسی سے اپنی انکم یا کمائی حاصل کرتا ہے تو کیا ایسا کام کرنا صحیح ہے یا نہیں اور یہ کام باہر کے ملکوں سے حاصل کرتا ہے۔ اس کے بارے میں بتا دیں؟
جواب: جو لوگوں کی تصوراتی خاکے اور الفاظ سستی تفریح اور ہنسانے کے لیے بناتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے ویل ہے، اس طرح کے کام لغویات میں آتے ہیں، ایسے کام کو بطور معیشت مکمل اختیار کرنا صحیح نہیں ہے، اس میں تصویر سازی، لغویات اور وقت کی بربادی ہے، اور اس میں کئی قباحتیں ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
آپ کا سوال عصری مسائل کے مطابق ہے، اینیمیشن، گرافک ڈیزائن اور ڈیجیٹل ڈیزائن اور آرٹس کا کام بہت پھیل چکا ہے، کارٹون کے کردار بنائے جاتے ہیں، اس حوالے سے شریعت نے جو ہمیں ہدایات دی ہیں، اگر وہ جو آپ کرادر بنا رہے ہیں، وہ جاندار نہیں ہیں تو جائز ہے، بلکہ ذریعہ معاش ہے، جیسا کہ گاڑیاں، گھر، ربوٹس، عمارت اور درخت، ان کی ڈیزائن میں کوئی اشو نہیں ہے، گاڑیوں کے نقشے اور عمارتوں کے نقشے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، علماء نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔
باقی جو آپ جاندار مخلوق کا کردار بناتے ہیں، اس میں تفصیلات ہیں۔
(1) اگر وہ مکمل جاندار کی تصویر بنائی گئی ہے، آنکھ، کان اور جسم کے مکمل اعضاء بنائے گئے ہیں، اس پر تو وعید ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ” [صحيح بخاری: 5954]
“قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں”
اگر گیمز اور ڈیجیٹل کارٹون مکمل جاندار کی شکل میں بنائی گئی ہوں تو اس وعید کے تحت آ سکتے ہیں، یہ کام حرام ہے، ورنہ شکوک و شبھات کے دائرے میں ضرور ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے۔
دوسری بات اس میں رائے یہ ہے کہ جاندار کی تصویر ہو، لیکن ناقص ہو، آنکھیں نہ ہوں، سر نہ ہو، چہرہ نہ ہو، مجھے یاد ہے کہ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اگر تصویر کے اندر زندگی کا عنصر نہ ہو، پھر کہیں مثبت انداز میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے، جس طرح فیزیو تھراپی والوں کو پڑھایا جاتا ہے، ایسی صورتوں علی الاطلاق تو نہیں بلکہ گنجائش دی جا سکتی ہے۔
تیسری بات ایسی تصاویر جو کسی سافٹ ویئر کے ذریعے سے بنائے جائیں، اس میں بھی یہ ہے کہ نقوش وغیرہ ظاہر نہ ہو تو گنجائش دی جا سکتی ہے۔
اور آل بات کریں تو فحاشی، گمراہ کن عقائد اور جادو وغیرہ کے لیے تصویر نہ بنائیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ