چھاتی پھونک تماشا

بڑی آوارگی کے ساتھ اُس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا، دھواں سانس کے ذریعے اندر کھینچا اور پھر اس انداز میں دھواں باہر چھوڑا کہ فضا میں دھوئیں کا ایک مرغولہ دائرے کی شکل میں پھیلتا چلا گیا۔ وہ اپنی اس مہارت پر نازاں اور شاداں و فرحاں تھا۔ وہ ہر بار منہ سے دھواں اس طرح پھینکتا کہ دُور تک دھواں دائرے کی شکل بناتا ہوا فضا میں تحلیل ہو جاتا۔ میں نے سوال کیا کہ آپ کو یہ مہارت کیسے حاصل ہوئی؟ اپنے جسم و جاں کو دھوئیں سے جھلسانے والا وہ شخص بڑے فخر اور اعتماد سے گویا ہوا کہ میں نے تین دن اس کام کی مشق کرنے میں کھپائے۔ان تین دنوں میں بیس سگریٹ کی ڈبیاں پھونک ڈالیں، تب جا کر اپنی
کوشش میں کامیاب ہوا۔ بیس سگریٹ کی ڈبیوں میں دو سو سگریٹ ہوتے ہیں۔ تین دنوں میں دو سو سگریٹوں کے دھوئیں نے اس کے نرم و نازک پھیپھڑوں اور سانس کی باریک نالیوں میں کس قدر زہر گھول دیا ہو گا، اِس کا ادراک اُسے تھا ہی نہیں۔ دو سو سگریٹوں کے کش لگا کر سفید کپڑے میں پھونک مار کر دھواں نکالا جائے تو اس کپڑے کی حالت اتنی ابتر ضرور ہو جائے گی کہ اسے کسی عمدہ واشنگ پاؤڈر سے بھی صاف کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ سگریٹ پینے والا ہر شخص اپنی جان کا کتنا بڑا دشمن ہے کہ وہ روزانہ سگریٹ کے زہریلے دھوئیں کو اپنی سانس کی نالیوں میں بہ خوشی لے جا کر انھیں جھلسا رہا ہے۔ اپنے منہ اور نتھنوں سے دھواں چھوڑنے والے یہ لوگ جب سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنی صحت اور دولت دونوں کو آگ میں سلگا رہے ہوتے ہیں۔ زندگی کی حقیقتوں، اس کی نزاکتوں، دل آویزیوں اور لطافتوں سے گریزپا کسی شخص کو بھی اگر یہ کہا جائے کہ وہ سو روپے کے نوٹ کو آگ لگا دے تو وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا مگر سگریٹ کے ذریعے وہ اپنے پھیپھڑوں اور پیسوں دونوں کو جھلسانے میں تامّل نہیں کرتا۔ کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو کسی کی بے وفائی کا غم غلط کرنے یا کسی ہرجائی کی اداسیوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے بھی سگریٹ پھونکتے چلے جاتے ہیں۔ کفیل آزر امروہوی کا شعر ہے۔
کمرے میں پھیلتا رہا سگریٹ کا دھواں
میں بند کھڑکیوں کی طرف دیکھتا رہا
میرے ایک دوست کا نام نور سکھیرا ہے۔ وہ گورنمنٹ سکول میں ایس ایس ٹی ہے۔ وہ ہیپاٹائیٹس اور شوگر کے ساتھ ساتھ دل کے عوارض میں بھی مبتلا ہے مگر سگریٹ کی لت چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔وہ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے مگر پھر بھی انھیں پھیپھڑوں کا کینسر ہو جاتا ہے اور کتنے ہی سگریٹ نوش ایسے ہیں کہ انھیں تمام عمر پھیپھڑوں کا کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا۔ اس کا جواب میں ہمیشہ یہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی چھت سے گر جائے اور اُسے چوٹ نہ لگے تو ہر شخص کو چھت سے چھلانگیں لگانا شروع نہیں کر دینی چاہییں۔
سگریٹ، پان، حقّہ، بِیڑی، سگار اور پائپ یہ تمام تمباکو نوشی کے ذرائع ہیں۔ تین تا پانچ ہزار قبل مسیح انسان کو تمباکو نوشی کا چسکا پڑا۔ سولھویں صدی میں تمباکو نوشی یورپ اور ایشیا میں متعارف ہوئی۔ ایشیا میں پاکستان سگریٹ نوشی میں پہلے نمبر ہے۔ جنوری 2008 ء کے ایک سروے کے مطابق 40 فی صد مرد اور 8 فی صد عورتیں باقاعدہ سگریٹ نوش ہیں۔ بلوچستان میں 51.7 فی صد، پنجاب میں 43.3 فی صد اور قبائلی علاقوں میں 14.4 فی صد افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ سب سے کم لوگ سرحدی علاقوں میں تمباکو نوشی کرتے ہیں مگر وہ نسوار کے ذریعے یہ کسر پوری کر دیتے ہیں۔ حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ کم آمدنی والے لوگ سگریٹ کے زیادہ عادی ہیں۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو مگر سگریٹ نوشی کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ نے ایسے لوگ بھی ضرور دیکھے ہوں گے جو مسلسل کھانستے اور بلغم پھینکتے رہتے ہیں مگر سگریٹ پینے سے پھر بھی باز نہیں آتے۔ اسلام آباد میں 28 فی صد نوجوان ایسے ہیں جو محض فیشن کی وجہ سے سگریٹ پیتے ہیں۔
جرمنی کے سائنس دانوں نے 1920 ء میں پہلی بار سگریٹ نوشی اور پھیپھڑوں کے کینسر کا چولی دامن کا ساتھ دریافت کر لیا تھا۔ پاکستان میں گلے اور پھیپھڑوں کے کینسر کے 90 فی صد مریض ایسے ہیں جو تمباکو نوشی کی وجہ سے اس مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمباکو سے دل اور ہائی بلڈ پریشر کے امراض بھی لاحق ہوتے ہیں۔ زبیر رضوی کا شعر ہے۔
دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمنِ جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو
ایک پاکستانی یونی ور سٹی کے طلبہ کی تحقیق کے مطابق 39 فی صد طلبہ ایسے ہیں جو اپنے زمانہ ء طالبِ علمی میں ایک بار ضرور سگریٹ پیتے ہیں۔ 25 فی صد طلبہ ایسے ہیں جو مستقل سگریٹ پینے کے عادی ہیں اور ان میں سے 23 فی صد طلبہ عمر بھر کے لیے سگریٹ کا روگ لگا بیٹھتے ہیں۔ ایک غیر ملکی سگریٹ کی ڈبی کی قیمت 300 روپے تک ہوتی ہے اور پاکستانی سگریٹ کی ڈبی 100 روپے تک میں مل جاتی ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے گذشتہ سال 103.5 ارب روپے صرف ٹیکس کی مد میں جمع کروائے تھے اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ پاکستانی لوگ کتنی خطیر رقم سگریٹ کے ذریعے پھونک دیتے ہیں۔ شراب پینے والے کے پاس اگر کوئی شخص بیٹھا ہو تو شراب پاس بیٹھے شخص کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی مگر سگریٹ ایسی ناہنجار اور بدتمیز چیز ہے کہ جو پاس بیٹھے ہر شخص کو مسلسل نقصان پہنچاتی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی لوگ سگریٹ نوشی کو برا خیال نہیں کرتے۔ 1999 ء تک پاکستان میں تمباکو نوشی سے مرنے والوں کی تعداد 60 ہزار سالانہ تھی مگر اب سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ جب کہ دنیا بھر میں سالانہ 70 لاکھ لوگ محض تمباکو نوشی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ میں سگریٹ نوشی کو خودکُشی کی ایک ایسی قسم سمجھتا ہوں کہ جو ہر سگریٹ کا عادی شخص بہ رضاورغبت سب گھر والوں کے سامنے کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ لوگ تمباکو نوشی کے ذریعے خود کُشی کر رہے ہیں مگر اس کے بیوی، بچے، بہن، بھائی اور والدین اس کی یہ عادت نہیں چھڑواتے۔ ٹوبیکو کنٹرول سیل کے مطابق تمباکو نوشی کی وجہ سے روزانہ 5 ہزار افراد ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں اور 6 تا 12 سال کے کم عمر 12 سو بچے روزانہ سگریٹ کے عادی بن رہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار بیحد خطرناک ہیں اور اگر سگریٹ کے اس منہ زور اور بھیانک عفریت پر قابو نہ پایا گیا تو 2025 ء تک سگریٹ نوشی سے مرنے والوں کی تعداد میں انتہائی خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ نظیر باقری کے بہت خوب صورت اشعار ہیں۔
دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو
مَیں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیا مجھ کو
نہ جانے کون سا جذبہ تھا جس نے خود ہی نظیرؔ
مری ہی ذات کا دشمن بنا دیا مجھ کو
بہت سے ممالک میں تمباکو نوشی پر مکمل پابندی ہے۔ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ اور عوام کے زیرِ استعمال جگہوں پر سگریٹ نوشی منع ہے۔ یہاں سگریٹ کے ہر پیکٹ پر اردو اور انگریزی زبان میں وارننگ کے ساتھ سرطان زدہ منہ کی تصویر بھی موجود ہے مگر ان باتوں کو کہیں بھی در خورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان جتنی رقم تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے آگاہی کے لیے خرچ کرتی ہے وہ بے کار اور رائگاں ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں سگریٹ نوشی ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس ملک میں سگریٹ پر مکمل پابندی عائد کر کے پاکستان کو سگریٹ سے پاک کر دیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق جنوبی فرانس میں واقع تمباکو کی آخری فیکٹری”فرانس تباک“ کو بھی اس ماہ بند کر دیا گیا۔یہ فیکٹری 25 ایکڑ پر مشتمل تھی۔ اس فیکٹری میں فرانس کے علاوہ یورپ بھر سے 20 ہزار ٹن تمباکو کے پتّوں کی پراسسنگ کی جاتی تھی۔ تمباکو نوشی کے خلاف فرانس کا یہ احسن قدم ساری دنیا کے لیے روشن مثال ہے۔ یقیناً اس سے تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی۔ پاکستان میں سگریٹ خریدنے اور فروخت کرنے پر مکمل قدغن ہونی چاہیے۔ پھر کوئی بھی شخص سگریٹ کے دھوئیں سے فضا میں دائرے بنانے کی مہارت حاصل کرنے کی احمقانہ جسارت نہ کرے گا اور یہ چھاتی پھونک کے ساتھ ساتھ گھر پھونک تماشا بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ان شا ء اللہ۔

(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: شیخ صالح السندی حفظہ اللہ کی طلبہ کو نصیحت