سنہری یادوں اور دل کش باتوں کا ایک جھرمٹ ہے جو مجھے ماضی کے جھروکوں میں کھینچ کر لے جانے پر بہ ضد ہے۔ماہ و سال کی زیادہ پرتیں الٹنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ابھی چند سال قبل تک جب مہنگائی کے عفریت نے اس قدر مکروہ اور بھیانک انداز میں منہ نہیں پھاڑا تھا، ابھی قلیل عرصہ پہلے جب اشیائے خورونوش سے لے کر جذبات و احساسات تک خالص بھی ہوتے تھے، سستے بھی اور دل رُبا و دل نشیں بھی، جی ہاں! ابھی چند سال قبل تک مَحبّتوں کے پنگھٹ پر چمکتی آسانیاں اور دمکتی آسودگیاں ہر گھر آنگن میں چہروں کو اجال رہی تھیں، کتنے ہی لوگ کم آمدنی کے باوجود معاشی خوش حالی کی سطحِ مرتفع پر مقیم شاداں و فرحاں تھے۔پھر یکایک مہنگائی کی تیرگی ابھری اور اتنی تیزی کے ساتھ روشنیوں کو بھسم کرتی چلی گئی کہ اس نے ہماری بصارت بھی چھین لی اور بصیرت بھی نوچ ڈالی۔اس نے فقط ہمارے بدن ہی نہیں چھید ڈالے بلکہ سوچ اور فکر کو بھی اپاہج اور مفلوج کر ڈالا۔افسوس تو یہ ہے کہ مہنگائی کے حق میں رُوکھی دلیلیں، پھیکی منطقیں اور پھوکٹ فلسفے بگھارے گئے۔حزبِ اختلاف میں بیٹھنے والوں نے مہنگائی کے خلاف صدائے احتجاج بلند بھی کی تو محض اپنی سیاسی دکان داری جمانے اور چمکانے کے لیے اور جب مہنگائی کے خلاف بولنے والوں کو حکومت ملی تو پھر آنِ واحد میں مہنگائی جائز اور درست ٹھہرا دی گئی۔کوکب ذکی کا شعر ہے۔
اب تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی ہے
زندگی کیسے کٹے گی مری مہنگائی میں
ابھی چند سال پیشتر جب ہم نے آئی ایم کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالا تھا، ہم آزاد پنچھیوں کی طرح اونچی اُڑانیں بھرا کرتے تھے۔آج ہم آئی ایم ایف کے ایسے بھونڈے غلام بن چکے ہیں کہ وہ ہمارے نتھنوں میں رسّی ڈال کر ہمیں جدھر دھکیلنا چاہیں، دھکیل دیتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو ڈالروں کے عوض غلامی کا ایسا چسکا اور لَت پڑی ہے کہ جس سے جان چھڑانے کے متعلق سوچنے ہی سے مشامِ جاں میں خوف کی تلاطم خیز لہریں دوڑ جاتی ہے۔مہنگائی نے آج ہماری سانسوں میں اتنے رخنے حائل کر دیے ہیں کہ دَم گُھٹا جاتا ہے، سینے مدقوق اور حالات مخدوش ہو چکے ہیں۔کُو بہ کُو الجھنیں ہیں، قریہ بہ قریہ وحشتیں سَر تانے کھڑی ہیں اور کوچہ بہ کوچہ مہنگائی کا ایسا جان کاہ سیاپا ہے کہ جس نے چہروں کی مسکان کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔دریچہ ء احساس میں مہنگائی ہی کے کانٹے اگتے چلے جاتے ہیں، خیال و فکر کے سانچوں میں مہنگائی کا سفاک طوفان ہی منہ پھاڑے کھڑا ہے۔کتنے ہی مہنگائی زدہ لوگ رضی اختر شوق کے اِس شعر کی مثل سوال کناں ہیں کہ :
‏ہماری راہ میں حیرت ہے اور وحشت بھی
کوئی بتائے کہ پہلے کدھر کو جاتے ہیں !
جب بھی مہنگائی کے مارے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو جواز یہی پیش کیا جاتا ہے کہ مہنگائی ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔اِس بودے اور پھسپھسے موقف سے عوام کے کسی بھی درد کا درماں ہو سکا ہے نہ کبھی ہو سکے گا۔جب عمران خان کے دورِ حکومت میں مہنگائی ہوئی تو تحریکِ انصاف کے گھبرو نوجوان مہنگائی کے حق میں دلائل دیتے تھے، کچھ دیوانے تو یہ نعرہ تک لگاتے تھے کہ پٹرول ہزار روپے لیٹر بھی ہو جائے تب بھی ووٹ عمران خان ہی کو دیں گے، اُن تاریخی اور یادگار لمحات میں تمام چَھیل چَھبیلی اتحادی جماعتیں مہنگائی کو مُلک و قوم کے لیے ناسور قرار دیتی رہِیں، پھر یکایک حالات نے پلٹا کھایا، تحریکِ انصاف اقتدار سے علاحدہ ہوئی اور اتحادی جماعتیں اقتدار میں آ گئیں اور مہنگائی پہلے سے بھی زیادہ ہوتی چلی گئی۔مہنگائی کو دنیا کی سب سے غلط چیز کہنے والوں نے مہنگائی کے جواز پیش کرنا شروع کر دیے، دوسری جانب تحریکِ انصاف نے مہنگائی کے خلاف باقاعدہ غلغلہ مچانا شروع کر دیا۔کل تک جو اتحادی جماعتیں مہنگائی کو زیرِ ہلاہل قرار دے رہی تھیں، آج مہنگائی کے حق میں دلائل پیش کرنے کے لیے طرح طرح کے عجیب و غریب فلسفے پیش کر رہی ہیں۔عوام الناس کے دکھوں کا مداوا کل ہُوا تھا نہ آج ان مسائل میں کوئی کمی کجی واقع ہوئی ہے۔
ساری اذیتیں ایک طرف، اکیلا بجلی کا بِل تمام مصائب سے بھاری اور موذی ہے، بجلی کا بِل جب بھی آتا ہے، ایک افتاد بن کر گرتا ہے۔عوام الناس نے سولر پلیٹس استعمال کر کے دیکھ لِیں، بلب کی جگہ انرجی سیور استعمال کر کے دیکھ لیے یہی نہیں بارہ بارہ گھنٹوں تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی کا ناہنجار بل اپنی اسی رَوِش اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔کھانے پینے کی چیزوں میں قناعت کی جا سکتی ہے، لوگ چھاچھ اور پیاز کے ساتھ روٹی کھا کر گزارہ کر سکتے ہیں مگر بجلی کے بِل سے جان چھڑانا کسی کے بس کی بات نہیں کہ یہ تو بہ ہر حال ادا کرنا پڑتا ہے۔
سری لنکاکے بعد جنوبی ایشیائی علاقائی ممالک میں جولائی 2022 ء میں سی پی آئی (صارف قیمت کا اشاریہ) پر مبنی افراطِ زر کی وجہ سے پاکستان 24.9 فی صد کو چُھو کر دوسرے نمبر پر ہے۔سری لنکا میں افراطِ زر 60.8 فی صد تک پہنچ چکی ہے، بھارت میں اس وقت افراطِ زر کی شرح 6.7 فی صد ہے۔ہمارے بادبانوں نے عام لوگوں کی آنکھوں میں اتنے اشک جھونک دیے ہیں کہ اب ان کا ازالہ دشوار دِکھائی دیتا ہے۔اجے سحاب کا شعر ہے۔
چیخ اٹھے ہیں مرے گھر کے یہ خالی برتن
اب تو بازار سے مہنگائی کو واپس لے لے