غزہ کے شیروں سے مار کھانے کے بعد اسرائیل کے بڑوں کو سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ ہماری فوجی طاقت ہی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ہمیں حماس کی بھی سننا ہوگی۔ اب خبریں ہیں کہ اسرائیل حماس کے قیدیوں کے بدلے اپنے مغوی چھڑانے کے لیے بے تاب ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران ان تینوں (اسرائیل کے وزیر اعظم،وزیر دفاع اور آرمی چیف) کے بدنما چہرے پر پڑنے والی پھٹکار ملاحظہ کیجئے اور اندازہ لگایئے کہ انہیں کیسا کڑوا گھونٹ پی کر نقصان کا یہ سودا کرنا پڑا ہے۔
1: اس کے بعد دجال کے ہاتھ میں موجود سب سے اہم کارڈ کھو جائے گا، یعنی فــلــسطـیـنـی شہریوں کی بھوک اور قتل اور نقل مکانی کے منصوبے کی ناکامی۔
2: دجالی فوج نے شمالی غــزہ کی پٹی پر حملے کی رفتار کھو دی اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، یہ نکتہ صہیونیت کے لیے جنگ بندی کو واضح طور پر مسترد کر دینے کی سب سے اہم وجہ تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائیں۔
3: اب قابض دجال پر مستقل جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔
4: گرفتار فوجیوں کے اہل خانہ ایک نئی ڈیل کی تکمیل اور اس طرح ایک نئی جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔
5: دجال اپنی ریڈ لائن سے پیچھے ہٹ گیا، جیسے فوجی آپریشن کو ایک دن کے لیے بھی نہ روکنا اور تمام صہیونی قیدیوں کو رہا کیے بغیر پٹی میں ایندھن کو داخل نہ ہونے دینا۔
6: جنگ بندی کے دوران غــزہ میں بکھرے اس کی درندگی کے مزید شواہد و ثبوت سامنے آئیں گے۔
7: جانبازوں کو نئی صف بندی کرنے کا موقع ملے گا۔
8: رہا ہونے والے مغوی جانبازوں کے اپنے ساتھ سلوک پر لب کشائی کر کے دجال کو ایسے ہی ننگا کریں گے، جیسے رہا ہونے والی دو معمر خواتین نے کیا تھا۔
9: دوران جنگ بندی جانباز دشمن کے ٹھکانے اچھی طرح معلوم کریں گے اور ان کے بارے میں پوری معلومات حاصل کریں گے، کیونکہ جانباز تو دجالیوں کو دیکھ رہے ہیں، جبکہ دجالیوں کی نظروں سے وہ اوجھل ہیں۔ جب لڑائی دوبارہ شروع ہوگی تو انہیں بہ آسانی ہدف بنا لیں گے۔
10: قیدیوں کی رہائی کے بعد دجال کے پاس جنگ اور نسل کشی کو مزید طول دینے کا جواز باقی نہیں رہے گا۔
ضیاء چترالی