سوال
کچھ لوگ پیسے (کمیشن) لے کر کام دیتے یا دلواتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس سوال کے جواب کو دو حصوں میں تقسیم کرلیں، ایک کا تعلق ہے کمیشن لینے والے کے ساتھ اور دوسرے کا تعلق ہے کمیشن دینے والے کے ساتھ۔
کمیشن لینے والوں کی دو قسمیں ہیں:
1۔ بعض لوگوں کی کمپنی کی طرف سے ڈیوٹی اور ذمہ داری ہوتی کہ وہ لوگوں کو ہائر کریں، اور انہیں اس کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ملازمین سے یا جن کو وہ کام پر رکھ یا رکھوا رہے ہیں، کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح کمپنیاں مختلف لوگوں سے مال خریدتی ہیں، اور انہوں نے ڈیلنگ کے لیے ملازمین رکھے ہوتے ہیں، ان ملازمین کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی سے کہیں کہ آپ مجھے کمیشن دیں میں آپ کی کمپنی سے ڈیل کروا دیتا ہوں۔
2۔ ایسے لوگ جو اُس ادارے یا فیکٹری کی طرف سے مقرر نہیں ہوتے، ویسے ہی وہ کسی کی مدد کرتے ہوئے انہیں کام تلاش کرکے دے دیتے ہیں، یا ان کا ادارہ ہی اس چیز کا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مختلف کمپینز میں نوکریاں تلاش کرکے دینی ہیں، اور لوگوں کی آپس میں ڈیل کروانی ہے، تو ایسے افراد یا اداروں کے لیے کام تلاش کر کے دینے کے عوض یا ڈیل کروانے کے عوض کمیشن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بلکہ یہ چونکہ دونوں اطراف کی مدد کر رہے ہوتے ہیں، لہذا دونوں طرف سے کمیشن لینا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے، البتہ اس میں جھوٹ اور دھوکہ دہی جائز نہیں، کیونکہ بعض لوگ کمیشن دونوں طرف سے لیتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں لے رہا، یہ جائز نہیں۔
یہ تو تھا کمیشن لینے کے حوالے سے۔ رہی یہ بات کہ جو لوگ ناجائز کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں، جیسا کہ پہلی قسم میں بیان کیا گیا، کیا انہیں کمیشن دے کر کام یا جاب حاصل کی جاسکتی ہے یا ڈیل کروائی جاسکتی ہے؟
اگر تو کمیشن دینے والا نا اہل ہے، لیکن اس کے باوجود پیسے اور رشوت کے زور پر نوکری یا پراجیکٹ لینا یا ڈیل کرنا چاہتا ہے، تو پھر کمیشن لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
’’لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي‘‘. [سنن ابی داود:3580]
’رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور لینے والے فریقین پر لعنت فرمائی ہے‘۔
لیکن اگر نوکری تلاش کرنے والا یا مال بیچنے والا حقدار ہے، یعنی وہ ملازمت کا اہل ہے یا اس کا مال معیاری ہے، لیکن مالک تک پہنچنے کے لیے درمیان والوں کو کمیشن دینا مجبوری ہے، تو پھر اس کے لیے مجبورا کمیشن دینا جائز ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“إنَّ مَنْ أَهْدَى هَدِيَّةً لِوَلِيِّ أَمْرٍ لِيَفْعَلَ مَعَهُ مَا لا يَجُوزُ كَانَ حَرَامًا عَلَى الْمُهْدِي وَالْمُهْدَى إلَيْهِ، وَهَذِهِ مِنْ الرَّشْوَةِ الَّتِي قَالَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي. فَأَمَّا إذَا أَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً لِيَكُفَّ ظُلْمَهُ عَنْهُ أَوْ لِيُعْطِيَهُ حَقَّهُ الْوَاجِبَ: كَانَتْ هَذِهِ الْهَدِيَّةُ حَرَامًا عَلَى الآخِذِ وَجَازَ لِلدَّافِعِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَيْهِ”. [مجموع الفتاوى:31/278]
“بلا شبہ جس نے بھى کسی ذمہ دار کو كوئى ہديہ اس ليے ديا كہ وہ كوئى ايسا كام كرے جو اس كے ليے جائز نہ تھا تو ہدیہ دينے اور لينے والے دونوں پر وہ حرام ہے، اور يہ اسى رشوت ميں شمار ہو گا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اور اگر وہ اسے اس ليے ہديہ ديتا ہے كہ وہ اس پر ظلم نہ كرے، يا پھر وہ اس كا حق ادا كرے، تو يہ ہديہ لينے والے پر تو حرام ہوگا لیکن دينے والے كے ليے جائز ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ