درد کا حد سے گزرنا ہے’ دوا ہو جانا
الحمد للّٰه وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تاہم انسان کے لیے موت؛ عملِ صالح کے لیے محرک ہے، حصولِ عبرت اور دل کی آنکھیں کھولنے کے لیے زیادہ اہم ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے موت کو حیات پر مقدم رکھا۔ اللہ تعالی نے اپنے تعارف میں کہا:
﴿ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَوٰةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ ﴾
جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے؟ ( الملك: 2 )۔
مقامِ عبرت
ہر انسان اس بات سے واقف ہے کہ دنیا میں کسی کے لیے بھی بقاء نہیں ہے، ہر ایک کے لیے موت کا وقت مقرر ہے، پھر بھی کثیر العدد نا عاقبت اندیش ایسے ہیں جو اپنے انجامِ بد سے بے پرواہ ہو کر رب کے نافرمان ہیں، اپنے نفس پر بھی ظلم کر رہے ہیں اور رب کے بندوں پر بھی طرح طرح کا ظلم ڈھا رہے ہیں، یوں روز بروز ان کی زیادتیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
پھر اللہ تعالی اچانک ظالموں کی ایسی گرفت فرماتے ہیں کہ انہیں بچنے کی کوئی امید ہی نہیں رہتی ہے، اسی یاس ونا امیدی کی حالت میں تباہ وبرباد کر دیئے جاتے ہیں۔
یقینًا اللہ تعالی کے اس مواخذے پر، اور ظالموں سے انتقام لینے پر اللہ تعالی کی حمد وثنا ہونی چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿فَقُطِعَ دَابِرُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ ۚ وَٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴾،
اس طرح جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی، اور تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ ( الأنعام: 45 )۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین (ت 1421ھ) رحمہ اللہ مذکورہ آیتِ کریمہ کی تفسیری فوائد میں فرماتے ہیں:
أنَّ اللّٰهَ محمود على قطع دابر الظالمين، وهو كذلك محمود على جلب النعم وعلى دفع النقم، والظالم إذا أهلكه اللّٰه فإنَّ ذلك من تمام عدله ورحمته، لأنه يكون نكالًا لما بين يديه وما خلفه.
اللہ تعالی کا ہر فعل قابلِ تعریف ہے، اُس کا ظالم کو ہلاک کرنا اور مظلوم کی داد رسی کرنا بھی قابلِ تعریف فعل ہے۔ ظالم کی ہلاکت در حقیقت اللہ تعالی کے عدل کا تقاضا ہے اور مظلوم کے حق میں رافت ورحمت؛ کیوں کہ رب کے اس فیصلے میں انسانیت کے لیے پیغامِ عبرت ہے۔ ( تفسير القرآن الكريم: ٤/٦٦٤ ).
آخری بات
کل شنبہ کا غروبِ آفتاب اپنے ساتھ شیطانی حزب کے سربراہ کو بھی لے گیا۔ آفتاب؛ رب ذو الجلال کے حضور سجدہ ریز ہوا، اور یہ سیاہ دل سپردِ تاریک ہوا۔
ایسے موقع پر دل میں مسرت اور چہرے پر بشاشت ایمان کی علامت ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿فَقُطِعَ دَابِرُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ ۚ وَٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴾۔
علامہ ابو القاسم زمخشری (ت 538ھ) آیتِ کریمہ کی تفسیر میں بہت خوب کہا ہے، فرماتے ہیں:
إيذانٌ بوجوب الحمد عند هلاك الظَّلَمة، وأنه من أجلِّ النِّعَم وأجزل القِسَم.
آیتِ مذکورہ میں ظالم کی ہلاکت پر اہلِ ایمان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی کے اس انتقام پر اس کی حمد وثنا بیان کریں، اس لیے کہ ظالم کا نیست ونابود ہونا اہلِ اسلام کے لیے عظیم نعمت اور کثیر الخیر عطیہ ہے۔ ( الكشاف: ص ٣٧٤، مجلد ).
محمد معاذ أبو قحافة
٢٥ ربيع الأول ١٤٤٦ھ، ليلة الأحد