قرآن وحدیث سلف کے منھج کے مطابق
جماعت اہل حدیث کا ہمیشہ سے یہ امتیاز رہا ہے کہ جب بھی اسلام میں کوئی بدعت یا عقیدہ سے کوئی انحراف یا فقہی و اجتہادی مسائل میں کتاب وسنت سے دوری پیدا ہوئی ہے تو ہر محاذ پر جماعت اہل حدیث نے صحیح اسلام کی ترجمانی کی ہے۔ اگر کسی نے حدیث کو چھوڑا تو اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اگر کسی نے قرآن میں تحریف کی تو اس کی تحریف کو سرعام پیش کر کے لوگوں کو اس سے ڈرایا۔ قرآن ہو یا حدیث ہمیشہ جماعت اہل حدیث اور سلفیوں نے ان کی پاسداری اور ان کی حرمت کا خیال رکھا اور جس مورچے پر جب بھی کوئی نقص سامنے آیا اسے درست کرنے کے لیے کمر بستہ ہوکر کھڑے ہو گئے۔
اسی لیے جماعت اہل حدیث کی خدمات ہر جانب میں پائی جاتی ہیں اور جب جب اہل اسلام کے یہاں کوئی بھی خرابی نظر آتی ہے تو جماعت اہل حدیث اس خرابی کے خلاف کھڑی ہوتی ہے۔ یہ اس جماعت کا طرۂ امتیاز ہے۔
ہمیشہ سے لوگ جماعت اہل حدیث کے علماء کی زبانی یہ جملہ سنتے ائے ہیں کہ “قرآن و حدیث”؛ “کتاب و سنت” کیونکہ اس کے پیچھے بر صغیر کا تقلیدی اور جمودی ماحول تھا جس میں مخالفین کے یہاں قران سے دلیل پکڑنا یا حدیث سے دلیل پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا اسی لیے علماء اہل حدیث نے ہمیشہ قرآن و حدیث کا نام لیا تاکہ لوگوں کو تقلید کے دلدل سے نکال اتباع کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔
اور چونکہ لوگ قرآن و حدیث کی دلیلوں کو اپنے علماء یا ائمہ کے اقوال کی وجہ سے چھوڑتے تھے اسی لیے جماعت اہل حدیث میں علماء سے یا اماموں سے دور رہنے پر خصوصی توجہ دی گئی اور جب اتباع سنت کی دعوت دی تو ڈائریکٹ حدیث کو لا کھڑا کردیا اور قرآن کے نصوص کو پیش کیا تاکہ لوگ علمائے سوء یا ائمہ ضلال کے چنگل میں نہ پھنسے رہیں۔۔۔
لیکن اس لفظ “قرآن وحدیث” کو بعض لوگوں نے اپنے مخصوص منہج اور طرز فکر پھیلانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا وہ بھی قرآن و حدیث قرآن حدیث کہنے لگ گئے۔۔۔
بلکہ بعض لوگوں نے تو اس کو موڈی فائی کر کے قرآن اور صحیح حدیث کا اپنا مخصوص استعمال شروع کردیا۔۔۔اور پھر اپنی رائے سے کتاب وسنت کی شرح وتفسیر کے ساتھ ساتھ عقلانیت کے ذریعہ فتوے بھی دینا شروع کر دیے۔۔۔
لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جماعت اہل حدیث جہاں قرآن و حدیث کی پیروی کی بات کرتی ہے وہیں قرآن وحدیث کو سلف صالحین، ائمہ مجتہدین و محدثین اور فقہاء و علمائے سابقین کے طریقے پر اور ان کی فہم کے مطابق ہی سمجھتی ہے۔۔۔
اس لیے اج کے وقت میں جب کہ صرف “قرآن اور حدیث” کی بات کہنے والے اور اس نعرے کو بلند کرنے والے ایسے لوگ بھی میدان میں آ چکے ہیں جو منہج سلف سے دور ہی نہیں بلکہ منھج سلف کے دشمن ہیں اور منھج سلف ومسلک اہل حدیث کو گمراہ شمار کرتےبیں۔۔۔۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ “قرآن و حدیث” کے لفظ کے ساتھ منہج سلف کا اضافہ اور لاحقہ ضرور لگایا جائے تاکہ جماعت اہل حدیث کا منہج صحیح طریقے سے لوگوں کے سامنے رہے۔۔۔
ورنہ ہمارے بھولے بھالے نوجوان جب صرف “قرآن و حدیث” کا لفظ سنتے ہیں تو اسی پر ریجھ جاتے ہیں اور بولنے والے کو اہل حدیث سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔
جبکہ بولنے والا اس لفظ کو بڑی چالاکی سے استعمال کرتا ہے لیکن ہمارے نوجوان اس کی باریکی کو نہیں سمجھتے اور اس کو اہل حدیث کا فرد یا ترجمان سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔
اور یہی غلطی دیگر مسالک کے علماء وعوام بھی کرتے ہیں اور ایسے شخص کو اہل حدیث کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں!! جبکہ وہ شخص خود کو کسی بھی خانے میں نہیں رکھتا!!! نہ اہل حدیث کے نہ دیگر مسالک کے۔۔۔!!
اس لیے جب تک کوئی شخص قرآن و حدیث کے ساتھ منھج سلف کا لفظ استعمال نہ کرے اس وقت تک اسے اہل حدیث نہ سمجھیں۔۔۔۔۔
خاص کر جب وہ شخص اہل حدیث کے منہج سے معروف نہ ہو یا وہ شخص پیچھے کسی منحرف منہج سے نکل کے آیا ہو یا منحرف افکار کے لوگوں سے متاثر ہو۔۔۔
ورنہ حق و باطل کی تمیز ممکن نہیں ہو سکے گی اور ایک باطل پرست شخص اہل حدیثوں کی صفوں میں گھس کر ان کے دین ومنہج اور عقیدے کو تباہ و برباد کر دے گا۔۔۔
اللہ تعالی ہمارے منہج، دین و عقیدے کو محفوظ رکھے آمین۔
ارقم رئیس مدنی، نئی دہلی
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بانی مرکز شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ نے سنابل کی قدیم مسجد (جو سنابل کی پرانی درس گاہ کے پاس تھی) میں ہم طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ہم جب خود کو ”اہل حدیث“ کہتے ہیں تو ”حدیث“ میں صرف ”مرفوع حدیث“ نہیں بلکہ ”موقوف حدیث“ یعنی آثار صحابہ بھی شامل ہیں جو اللہ کے کلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔
کفایت اللہ سنابلی