جانے والے بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں جو چہرے کی رعنائی ہی نہیں، آنکھوں کا پانی تک ساتھ لے جاتے ہیں، وہ کرب کی اتنی لہریں جسم و جاں میں مدغم کر جاتے ہیں کہ کبھی مدھم ہو ہی نہیں پاتیں۔یہ دنیا واقعی عبرت گاہ ہے، ایک سراب کدہ ہے، جہاں آرام، سکون اور تعیّشات کو کھوجتے اور تلاشتے کوئی اپنی زیست کو عُسرت میں گزار دیتا ہے تو کوئی عِشرت میں، مگر نصیحت کوئی کوئی حاصل کر پاتا ہے، ہدایت کسی کسی کے ہی نصیب میں ہوتی ہے۔رنج و آلام سے اٹی اِس دنیا میں بعض لوگ صبر و استقامت کے ایسے دھنی بھی ہوتے ہیں کہ آنکھوں کو یقین ہی نہیں آتا۔وہ مہلک اور جان لیوا مصائب کے سامنے بھی سینہ سپر رہتے ہیں اور آخری سانسوں تک زندگی کے محاذ پر لڑتے رہتے ہیں۔
ہنستا مسکراتا، محمد آصف یہ دنیا چھوڑ چلا، ایک بانکا، سجیلا اور چَھیل چھبیلا سا نوجوان، معصوم سا تبسّم لبوں پر سجائے، اَن گنت روگ دل میں لیے پھرتا تھا۔جان کاہ اذیتوں کو دل میں چُھپا لینا، کمال ہوتا ہے اور اِن ایذاؤں کو چُھپا کر مسلسل مسکرانا، اس سے بھی بڑا کمال۔کسی بھی نوجوان کے گُردے ہی فیل ہو جائیں تو موت اُسے عین سامنے کھڑی دِکھائی دیتی ہے، ہر آن اور ہر لمحہ موت کا دھڑکا اور کھٹکا لگا رہنے کے باوجود، ہر کسی سے ملنا اور متبسّم چہرے اور زندگی کی رعنائیوں سے بھر پور چمکیلی آنکھوں کے ساتھ ملنا، اتنا آسان تو نہیں ہُوا کرتا۔یہ بھی عجیب کیفیت ہوتی ہے کہ درد، آپ کی بوٹیاں نوچتے چلے جائیں اور آپ کسی پر اپنی مہلک تکلیف کو ظاہر تک نہ ہونے دیں۔اذیتیں آپ کے بدن کو اُدھیڑتی چلی جائیں اور آپ اپنے وجود کو سمیٹ کر سب کو خوشیاں فراہم کرتے چلے جائی، یہ چُھوئی مُوئی سے لوگوں کو بھی اللہ عزم و ہمت کا ایسا کوہِ گراں بنا دیتا ہے کہ دیکھنے والے دنگ اور ششدر رہ جاتے ہیں۔واللہ! یہ بھی تو دنیا کے عظیم لوگ ہوتے ہیں کہ اندر سے مکمل طور پر ٹوٹنے پھوٹنے کے باوجود، اپنے وجود کو بڑے قرینے کے ساتھ سنبھالے رکھتے ہیں، انھیں اپنی زندگی سے بھی وفا کی امید نہیں ہوتی مگر وہ سب کے ساتھ وفاؤں کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں، وہ دُکھی ہونے کے باوجود سب میں مسکراہٹیں بانٹ رہے ہوتے ہیں، وہ مشکلات کے حصار میں بھی، آسانیاں تقسیم کرتے ہیں۔مصائب کا تن و توش اور انگلیٹ جتنا بھی توانا ہو جائے، زندگی جس قدر بھی واہموں میں گِھری ہو، سانسیں تک شکوک و شبہات اور وسوسوں میں مبتلا ہونے کے باوجود، ان کے دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش اور اضطراب تک نہیں ہو پاتا۔۔فیض احمد فیض نے کہا تھا۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لا ریب درد جب کسی گھر کا راستہ دیکھ لیں تو ہاتھ دھو کر پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں، مگر یاد رکھیں! کسی بھی مسلمان کے لیے تکالیف برداشت کرنے کا اجر اور انعام بھی اللہ کے ہاں بہت بلند ہے، صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ” مسلمان کو کوئی بھی دکھ، تکلیف، رنج اور غم آئے یا صدمہ پہنچے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی اگر چبھے تو ہر دکھ کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ ”
صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث کا آخری حصّہ ہے کہ ” نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں، ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔”
یقیناً زندگی کی راہیں بھی فریب ہیں اور بانہیں بھی سراب، یہ دنیا عارضی ہی تو ہے، موت سے مفر بھلا کس کو ہے؟ یہ دنیا عارضی ہے، یہاں سب نے ہی مر جانا ہے۔کتنے ہی ہمارے ایسے جان سے پیارے لوگ ہم سے جدا ہو چکے کہ ہمارے دل کے طاقچوں پر اُن کے نام کے دیے آج تک روشن ہیں، مگر جو لوگ مکمل طور پر کرب کی بانہوں میں سمٹ آنے کے باوجود محمد آصف کی طرح مسکراتے ہیں، اللہ کو ان پر بڑا پیار آتا ہے۔وہ زندگی میں جتنے لاڈلے اور چہیتے ہوتے ہیں، موت کے بعد ان سے اور بھی زیادہ مَحبّت کی جاتی ہے۔
بس ایک لمحے کے لیے توقف کر کے سوچیں کہ اگر ہم ایسے کسی ایک درد میں بھی مبتلا نہیں ہیں اور اگر ہم ایسے کسی ایک بھی روگ سے آشنا تک نہیں ہیں تو پھر سردیوں کی اِن یخ بستہ راتوں کے کسی پہر چپکے سے اٹھیں، وضو کریں اور گھر کے کسی تنہا گوشے میں اس ربّ کریم کے سامنے کھڑے ہو کر رونا شروع کر دیں اور اس ذات باری تعالٰی کا شُکر ادا کرتے چلے جائیں، اس لیے کہ اللہ ربّ العزّت کو دو قطرے بڑے ہی محبوب ہیں۔ایک اُس کی راہ میں شہید ہونے والے شخص کے خون کا قطرہ اور دوسرا آنسو کا وہ قطرہ جو اُس کے خوف کی وجہ سے یا اُس کا شُکر ادا کرنے کے لیے کسی آنکھ سے بہ نکلے۔اگر ہمارے دلوں میں کسی طور خوفِ خدا کا کوئی احساس جاگزیں نہیں ہو رہا تو سورہ الحج کی یہ پہلی آیت کا ترجمہ ضرور پڑھ لیں!
” اے لوگو ! اپنے پروردگار ( کے غضب) سے ڈرو، یقین جانو کہ قیامت کا بھونچال بڑی زبردست چیز ہے۔“