میں حرمِ مدنی میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ابو قدامہ! تم نے اللہ کی راہ میں اک عمر گزاری ہے. جہاد و قتال کے اس سفر کا سب سے حیرت انگیز واقعہ سناؤ!

میں نے سنانا شروع کیا …
میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ صلیبیوں سے لڑنے کیلیے محاذ کی طرف روانہ ہوا. راستے میں رقہ شہر سے گزرے تو وہاں کی مساجد میں وعظ و نصیحت کی اور لوگوں کو اللہ کی راہ میں جہاد اور انفاق پر ابھارا.
جب رات نے ڈیرے ڈال لیے تو میں نے رات گزارنے کیلیے کرائے پر ایک جگہ لی. رات کا کچھ حصہ ہی گزرا ہو گا کہ دروازہ کھٹکھایا گیا. میں نے دروازہ کھولا تو ایک خاتون کو چادر میں لپٹا ہوا پایا.
پوچھا کہ کیا چاہتی ہو؟
“کیا تم ابو قدامہ ہو ؟”
“ہاں!”
“تم نے محاذ کیلیے مال جمع کیا ہے ؟”
“ہاں!”
اس نے ایک رقعہ اور بالوں سے بنی ہوئی مضبوط رسی دی اور روتی ہوئی لوٹ گئی!

میں نے رقعے کو پڑھا تو لکھا ہوا تھا: “تم نے ہمیں جہاد کی طرف بلایا. مگر میں عورت ہوں، جہاد کی قدرت نہیں رکھتی. ہاں مگر اپنی بہترین شے تمہارے سپرد کرتی ہوں. یہ میری چٹیا کے بالوں سے بنی رسی ہے. اسے گھوڑے کی زمام بنا لو. کیا خبر کہ اللہ میرے بالوں کو اپنی راہ میں تیرے گھوڑے کی رسی بنے دیکھے تو مجھے بخش دے!”
میں اس خاتون کی حرص اور مغفرت و جنت کے شوق پر حیران رہ گیا !

جب صبح ہوئی تو میں اور میرے ساتھی رقہ سے نکلے. کچھ ہی آگے گئے ہوں گے کہ پیچھے سے ایک گھڑ سوار نے آواز لگائی .. “اے ابو قدامہ! رک جائیں اللہ آپ پر رحم کرے”
میں نے ساتھیوں سے کہا کہ تم چلو. میں ذرا اس کا پتہ لگا کر آتا ہوں. میں اس گھڑ سوار کے پاس آیا. تو وہ گویا ہوا:
“اللہ کا شکر ہے کہ آپ مجھے مل گئے اور میں نامراد نہیں لوٹا.”
میں نے حیرت سے اسے دیکھا..
کہنے لگا : “میں آپ کے ساتھ لڑائی کہلیے نکلنا چاہتا ہوں..”
اچھا… مگر اپنا نقاب تو ہٹاؤ تا کہ میں تجھے دیکھ سکوں. اگر لڑنے کے قابل ہوئے تو چلے چلنا. اور چھوٹے ہوئے تو تمہیں واپس بھیجنا پڑے گا!
اس نے نقاب ہٹایا تو گویا چہرہ نہیں چاند تھا …. سترہ کے لگ بھگ معلوم ہوتا تھا !
“بیٹا تمہارا باپ کدھر ہے ؟”
“صلیبیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکا، میں اس کا بدلہ لوں گا!”
“اور ماں تیری زندہ ہے ؟”
“ہاں!”
“تو بیٹا! اس کے پاس جاؤ اور اس سے اچھا معاملہ کرو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے! ..”
کہنے لگا: “کیا آپ میری ماں سے واقف نہیں ہیں؟”
نہیں تو!
“جس نے آپ کو امانت سپرد کی ؟”
کیسی امانت ؟
“ارے وہی رسی والی!”
“کون سی ؟”
بڑی جلدی بھول گئے ہو چچا! کیا کل آپ کے پاس کوئی عورت رقعہ اور رسی لیے نہیں آئی تھی ..؟
ہاں ہاں..
وہ میری ماں ہے. اسی نے حکم دیا ہے کہ جہاد پر نکلوں. اور قسم دی ہے کہ واپس مت آنا اور اس نے مجھے کہا: “اے بیٹے! جب کفار سے ملو تو پیٹھ مت پھیرنا. اپنی جان اللہ کے سپرد کرو اور اسی رفیقِ اعلیٰ کی ہمسائیگی طلب کرو. جاؤ اپنے باپ اور مامؤوں کے ساتھ جنت میں رہو.. بیٹا! اللہ نے تجھے شہادت دی تو میری شفاعت بھی کرنا.” پھر اس نے مجھے سینے سے لگایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: “الہی! سیدی! مولائی! یہ میرا بیٹا ہے میری دل کی ٹھنڈک میرے جگر کا ٹکڑا، تجھے سونپتی ہوں.. پس اسے اس کے باپ اور مامؤوں سے ملا دے” …

پھر وہ لڑکا کہنے لگا: “آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھے اپنے ساتھ جانے سے مت روکیے! میں ان شاء اللہ شہید بن شہید ہوں.. میں اللہ کی کتاب کا حافظ ہوں اور گھڑسواری و تیر اندازی جانتا ہوں. کم عمر سمجھ کر کمتر مت سمجھیے!”

میں نے جب اس کے جذبات دیکھے تو اسے ساتھ لے لیا. خدا کی قسم وہ سواری میں سب سے تیز رفتار تھا. اور پڑاؤ کے وقت سب سے چاق و چوبند! ہمہ وقت ذکرِ الہی اس کی زبان پر جاری رہتا …

سفر کے دوران ہم ایک جگہ اترے. ہمارا روزہ تھا. لڑکے نے اصرار کیا کہ میں افطاری بناؤں گا. وہ افطاری بنانے چل پڑا. کافی دیر ہو ہو گئی مگر آیا نہیں. میرے ساتھی نے کہا: ابو قدامہ! ذرا جا کر دیکھو تو سہی تمہارے دوست کا کیا معاملہ ہے.
میں گیا تو دیکھا کہ لڑکے نے لکڑیاں جلا کر دیگچا چڑھا رکھا ہے, مگر تھکاوٹ اور نیند کے مارے پتھر پر سر رکھے سو چکا ہے.
میں نے اسے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا. مگر خالی ہاتھ لوٹنا بھی درست نہیں تھا. سو میں کھانا تیار کرنے لگا اور لڑکے کو دیکھتا رہا.
کیا دیکھتا ہوں کہ وہ لڑکا مسکرا رہا ہے. پھر اس کی مسکراہٹ شدید تر ہو گئی حتی کہ کھل کر ہنسنے لگا. پھر یکدم اٹھ بیٹھا. جب مجھے دیکھا تو گھبرا گیا اور کہنے لگا: “اوہو! آپ کو لیٹ کر دیا. مجھے کھانا بنانے دیجیے میں جہادی سفر میں آپ کا خادم ہوں.”
میں نے کہا اللہ کی قسم تجھے کچھ نہیں بنانے دوں گا حتی کہ تو مجھے بتائے کہ کس چیز نے تجھے ہنسایا ؟
کہنے لگا کہ یہ تو بس ایک خواب تھا.. چھوڑیے.
میں نے اللہ کی قسم دی کہ تو مجھے لازمی بتا.
کہنے لگا: “چچا جان! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں… اس کا حسن و جمال ایسا ہے جیسے اللہ کی کتاب بتلاتی ہے, میں حیرت کے مارے چلتا جا رہا تھا کہ میں نے ایک جگمگاتا محل دیکھا. ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی تھی … چھت موتیوں, یاقوت اور جواہر سے بنی اور دروازے سونے کے تھے. اور لڑکیاں دروازوں کے پردے اٹھا رہی تھیں. ان کے چہرے چاند تھے. میں ان کے حسن و جمال پر حیران تھا کہ ایک لڑکی میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی سہیلی سے کہنے لگی: یہ مرضیہ کا خاوند ہے اور وہ اس کی بیوی مرضیہ ہے.
میں نے لڑکی سے کہا کہ تم ہو مرضیہ ؟
کہنے لگی میں اس کی ایک ادنی سی خادمہ ہوں. مرضیہ محل میں ہے. جاؤ اندر!
میں داخل ہوا تو محل کے اوپر والی منزل میں سرخ سونے سے بنا کمرہ دیکھا. جس پر سبز زبرجد کا کام تھا. اس کے ستون چمکتی چاندی کے تھے. اس میں ایک لڑکی تھی، جس کا چہرہ سورج کی مانند چمک رہا تھا. اگر اللہ میری بصارت قائم نہ رکھتا تو وہ گل ہو جاتی اور میرے حواس معطل ہو جاتے..
لڑکی نے مجھے دیکھا تو کہنے لگی: اللہ کے دوست اور حبیب کو خوش آمدید, میں آپ کیلیے اور آپ میرے لیے ہیں.
میں اس سے قریب ہونے لگا تو وہ بولی : اے میرے سرتاج اور میرے پیارے! ابھی نہیں .. ہم سے کل ظہر کا وعدہ کیا گیا ہے! اس بات پر میں مسکرایا اور خوش ہوا.”

میں نے اس لڑکے سے کہا : اچھا خواب ہے ان شاء اللہ
پھر ہم نے روزہ کھولا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ محاذ کی طرف روانہ ہو گئے.

اگلے دن جب دشمن سامنے آ گیا اور جہاد کی صفیں بنا لی گئیں تو میں اس لڑکے کو ڈھونڈنے لگا. اسے اگلی صفوں میں پایا. میں اس کے پاس گیا اور کہا: بیٹا کیا تجھے امور جہاد کا تجربہ ہے ؟ کہنے لگا کہ نہیں.. یہ میرا پہلا معرکہ ہے.
میں نے کہا بیٹا جیسا تم سمجھتے ہو ویسے نہیں ہے. یہ لڑائی کا معاملہ ہے اس میں خون بہتا ہے. پس تم پیچھے آ جاؤ. اللہ نے فتح دی تو تم بھی فاتحین میں سے ہو گے اور اگر معاملہ برعکس ہوا تو کم از کم سب سے پہلے نہیں مارے جاؤ گے.
“یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟”
“ہاں میں ہی کہ رہا ہوں.”
“کیا آپ پسند کرتے ہیں میں اہل جہنم میں سے ہو جاؤں؟”
“معاذ باللہ بیٹے ایسا قطعا نہیں ہے، ہم جہنم سے بچنے کیلیے تو جہاد کرنے نکلے ہیں !”
“پھر اللہ کا یہ فرمان سنیے :

“ومن يولهم يومئذ دبره إلا متحرفا لقتال أو متحيزا إلى فئة فقد باء بغضب من الله ومأواه جهنم.”

تو چچا جان! کیا میں سب سے پہلے پیٹھ پھیر کر اہل جہنم میں سے ہو جاؤں ؟

میں اس کی حرص اور آیات پر اس کی گرفت سے بہت حیران ہوا. میں نے اس سے کہا کہ بیٹے یہ آیت کا محل نہیں ہے.
لیکن وہ لوٹنے سے انکاری رہا. میں اس کا ہاتھ پکڑ کر زبرستی لے جانا چاہا مگر وہ ڈٹ گیا … اسی اثناء میں لڑائی شروع ہو گئی اور وہ میرے سے چھوٹ گیا۔

شہسوار ٹکرا گئے، نیزے بلند ہونے لگے، تلواریں چمکنے لگیں، کھوپڑیاں کٹنے لگیں، ہاتھ پاؤں اڑتے رہے … گھمسان کا وہ رن پڑا کہ ہر بندہ اپنی لڑائی لڑنے لگا، دوست کو دوست کی خبر نا رہی.. ظہر کا وقت داخل ہوا تو اللہ نے صلیبیوں کو شکست دی۔
فتح کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا، ظہر ادا کی اور ہم میں سے ہر کوئی اپنے پیاروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا … مگر اس لڑکے کا کوئی عزیز نہ تھا، اس کا پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔

میں اس کی تلاش میں نکلا تو ایک آواز آئی:
اے لوگو! میرے چچا ابو قدامہ کو بلاؤ میرے چچا ابو قدامہ کو بلاؤ.. میں آواز کا پیچھا کرتے ہوئے گیا تو لڑکے کی نعش کو پایا. نیزہ اس کے جسم سے پار ہو چکا تھا. گھوڑے اس کے جسد کو روند چکے تھے! ہڈیاں ٹوٹی ہوئی، گوشت باہر نکلا ہوا اور اعضاء الگ الگ …. جیسے کوئی یتیم بچہ صحرائی طوفان کی نذر ہو گیا ہو۔

میں اس کے قریب گیا۔ ہاتھوں سے اس کو سیدھا کیا اور چیخا کہ یہ رہا تیرا چچا ابو قدامہ.. بولو!
وہ لڑکا کہنے لگا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے وصیت سنانے کیلیے زندہ رکھا۔ پس غور سے سنیے …
میں اس کی حالت پر رو پڑا۔ مجھے اس کی خوبیاں اور اس کا حسن و جمال یاد آیا، اس کی ماں کی یاد آئی کہ جس نے اپنے خاوند اور بھائیوں کا غم کاٹا اور اب اس جگر گوشے کا کاٹے گی! میں اپنے کپڑے سے اس کے چہرے کا خون صاف کرنے لگا…
کہنے لگا: چچا! اپنے کپڑے کیوں گندے کرتے ہو؟ میرے کپڑے سے پونچھو … میرے پاس کوئی جواب نہ تھا!

پھر وہ کہنے لگا: “میں نے آپ سے وعدہ لیا تھا کہ میری شہادت کے بعد رقہ جائیں گے اور میری ماں کو خوشخبری دیں گے کہ اللہ نے اس کا بھیجا تحفہ قبول کر لیا ہے … اور اس کا بیٹا اللہ کی راہ میں آگے بڑھتا ہوا مارا گیا ناکہ پیٹھ پھیرتے ہوئے! .. اگر اللہ نے میری شہادت قبول کی تو میں اپنی ماں کا سلام اپنے باپ اور مامؤوں کو پہنچاؤں گا…”
پھر کہنے لگا : چچا جان! مجھے ڈر ہے کہ میری ماں کو یقین نہ آئے. آپ میرا خون آلود کپڑا ساتھ لیے جانا تا کہ اسے یقین آ جائے… اور اسے کہنا کہ اب جنت میں ملیں گے! …”
“اور اے چچا جان! جب آپ میرے گھر جائیں تو میری نو سالہ بہن ہے .. میرے گھر آنے پر وہ خوش ہوا کرتی تھی اور نکلنے پر غمگین! اس نے اپنے باپ کا غم دیکھا اور اب میرا دیکھے گی! اس نے نکلتے وقت مجھے کہا تھا: بھیا دیر مت کرنا! پس آپ اسے دلاسہ دیجیے گا. اور اس سے کہنا کہ میں آپ کا بھائی ہوں…”
پھر اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں … کہہ رہا تھا : چچا جان! کعبے کے رب کی قسم خواب سچ ہوا, مرضیہ میرے سرہانے کھڑی ہے اور میں اس کی مہک محسوس کر رہا ہوں۔
پھر اس نے حرکت کی اور اس کی رگ بہ پڑی اور اس نے جان اللہ کے سپرد کر دی۔

میں نے اس کا کپڑے کا ایک حصہ رکھ لیا. جب اسے دفنا چکا تو میرا سب سے بڑا کام اس کی وصیت پر عملدرآمد تھا. میں رقہ لوٹ گیا. مجھے اس کی ماں کا نام اور مکان کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا. گھومتے پھرتے میں ایک گھر کے سامنے پہنچا جس کے دروازے پر ایک بچی کھڑی تھی۔ جو ہر گزرنے والے سے پوچھتی: چچا جان کہاں سے آ رہے ہیں ؟ اگر وہ کہتا جہاد سے تو اپنے بھائی کا پوچھتی. مگر کسی کو اس کا معلوم نہ تھا.. حتی کہ وہ رو پڑی۔ کہنے لگی : کیا ہو گیا ہے کہ سارے لوگ آ رہے ہیں مگر بھیا نہیں آ رہا۔
میں نے اس کا حال دیکھا تو اس کے پاس گیا. مجھ سے بھی اس نے وہی پوچھا … میں نے کہا بیٹی آپ کی والدہ کہاں ہیں؟ وہ اندر سے والدہ کو بلا لائی. اس کی والدہ آئی تو مجھے پہچان گئی!
“ابو قدامہ! تعزیت کرنے آئے ہو یا خوشخبری دینے ؟”
“کیا مطلب ؟”
“اگر تو مجھے بتاؤ گے میرا بیٹا آگے بڑھتے ہوئے مارا گیا تو خوشخبری ہے کہ اللہ نے تحفہ قبول کیا جسے میں نے سترہ سال سے تیار کر رکھا تھا.. اور اگر بتاؤ گے کہ وہ صحیح سالم غنیمتیں لے کر لوٹ آیا ہے تو تعزیت ہے کہ میرا تحفہ قبول نہ ہو سکا!”
“اللہ کی قسم خوشخبری لے کر آیا ہوں.”

میرے سامان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی: میرا نہیں خیال کہ سچ کہتے ہو. مگر سامان کھولا تو پکار اٹھی: یہ وہی کپڑا ہے جو میں نے خود اپنے لخت جگر کو پہنایا تھا… وہ اللہ اکبر پکار اٹھی.. اس کی خوشی دیدنی تھی۔
مگر بچی رو پڑی اور نڈھال ہو کر گر پڑی۔ اس کی ماں اسے اٹھا کر لے گئی اور پانی کے چھٹے مارنے لگی … میں اس کے سرہانے بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگا. مگر وہ اپنے بابا اور بھیا کا نام لے لے کر روتی رہی حتی کہ مر گئی!

اس کی ماں نے اسے اٹھایا اور دروازہ بند کر لیا۔ میں نے کان لگایا تو وہ کہ رہی تھی:
“مولا! اپنا خاوند قربان کیا, اپنے بھائیوں کو قربان کیا, اب لخت جگر بھی وار دیا.. بس یہ سوال ہے کہ مجھ سے راضی ہو جا اور جنت میں ان کے ساتھ جمع کر دے!”
میں دروازہ کھٹکھاتا رہا کہ وہ کھولے تو میں اسے کچھ مال دوں. نہ تو اس نے دروازہ کھولا اور نہ ہی کسی بات کا جواب دیا… !!

میں لوٹ آیا … اس بہن بھائی کے غم میں اور اس عظیم ماں کے صبر پر حیران کرتے ہوئے! یہی میرے جہادی سفر کا سب سے حیرت انگیز واقعہ ہے!

(مشارع الأشواق إلى مصارع العشاق لابن النحاس : ٢٨٥ – ٢٩٠)

ترجمانی : عبدالعزیز ناصر