مولانا طارق جمیل کے جواں سالہ بیٹے کی المناک موت سے ماحول  سوگوار ہے۔ ان کے بیٹے کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ ذہنی عوارض میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی بیماری اور آزمائش سے محفوظ رکھے۔

“ڈپریشن بھی عام امراض کی طرح ایک مرض ہے، ایک بیماری ہے، جو کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اور آجکل کے حالات میں تو یہ بالکل بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
جس طرح نمونیا ہو جانا کسی روحانی کمزوری کا شاخسانہ نہیں ہوتا، اسی طرح ڈپریشن کو بھی روحانی کمزوری سے جوڑنا درست نہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں عام خیال ہے۔ بلکہ ایسے شخص کو وظائف وغیرہ بتانے کا بھی اکثر الٹا نقصان ہی ہوتا ہے۔ اس بیماری کا بھی دوسری بیماریوں کی طرح اس شعبے کے ماہر طبیب (سائیکاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ، حکیم، ہومیوپیتھ، کوئی بھی) سے علاج کروانا چاہیے، نہ کہ اسکو اس شخص کے گناہوں، کوتاہیوں اور بشری کمزوریوں سے جوڑا جائے۔
علماء کے مطابق اگر ڈپریشن اتنا شدید ہو کہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے نتائج و علل کو جانچنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے تو ایسا شخص معذور کے حکم میں ہے اور اسکی خودکشی پر وہ وعید منطبق نہیں ہو گی جو احادیث میں موجود ہے۔ اور ایسے شخص کی مغفرت کی امید رکھی جائے گی۔”
واللہ اعلم
نوٹ:
کچھ لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ ہر خودکشی ڈپریشن کی وجہ سے ہی تو ہوتی ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ بلکہ ڈپریشن میں کی گئی ہر خودکشی کو بھی کلین چٹ نہیں دی جا سکتی۔ البتہ عاصم جمیل صاحب تو ڈپریشن کی آخری سٹیج پر تھے کیونکہ الیکٹرو کنولسِو تھراپی صرف اسوقت دی جاتی ہے جب علاج کی تمام تر تدابیر ناکام ہو چکی ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ ڈپریشن کے علاوہ بھی خودکشی کی بہت سی وجوہات ہیں۔

ڈاکٹر رضوان اسد خان