آج بشارت حمید صاحب کی ایک پوسٹ پڑھی کہ انہوں نے آئرن اسٹور پر بطور پارٹنر کام کیا ہے۔ اور جس ٹی آئرن کو ایک کلو کہا جاتا ہے، وہ در اصل 900 سے 925 گرام ہوتا ہے۔ اور یہ وزن اسٹیل مل سے کہہ کر رکھوایا جاتا ہے۔ اب سب مارکیٹ میں یوں ہی چل رہا ہے۔ اگر کوئی گاہک دوکاندار سے مطالبہ کر دے کہ اس نے تول کر لینا ہے تو اسے وزن پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ پڑھ کر مجھے اپنا گوالا یاد آ گیا۔
بیگم صاحبہ نے شکایت کی کہ گوالا جو دو لیٹر دودھ دے کر جاتا ہے، وہ دو لیٹر سے کم ہوتا ہے کیونکہ دو لیٹر کے برتن میں ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کم ہے۔ مجھے لگا کہ شاید ایسے ہی وہم ہو گا۔ خیر، میں نے اگلے دن گوالے سے کہا کہ آپ جو دو لیٹر دودھ دے کر جاتے ہیں، یہ دو لیٹر پورا نہیں ہوتا، کیوں؟ تو اس نے فورا کہا کہ ایسا ہی ہے۔ میں آپ کو دو لیٹر دودھ نہیں دیتا بلکہ دو سیر دیتا ہوں۔
اب میں نے اسے کہا کہ تمہارا یہ پیمانہ کہ جس سے تم ماپ کر دے رہے ہو، یہ تو لیٹر کا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ یہ لیٹر نہیں ہے، یہ سیر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ پیمانہ کہاں سے لیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے آرڈر پر بنوایا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ اس پیمانے کے مطابق دودھ لیتے ہیں؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ ہم دودھ لیٹر کے حساب سے لیتے ہیں اور بیچتے سیر کے حساب سے ہیں۔ میں نے کہا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ اب آپ کو ہی نہیں علم۔ سب مارکیٹ میں ایسا ہی چل رہا ہے یعنی سب لوگوں کے علم میں ہے کہ یہ کہنے کو لیٹر ہے لیکن حقیقت میں سیر کا پیمانہ ہے۔
تو یہ کہانی صرف لوہا بیچنے والوں کی نہیں ہے بلکہ ہر ڈیپارٹمنٹ اور شعبے کی یہی صورت حال ہے۔ اللہ عزوجل معاف فرمائے۔ آپ قیمت بڑھا لو۔ پیمانہ کیوں کم کرتے ہوں۔ معروف پیمانے وہی ہیں جو طے ہیں۔ اب اپنا ایک پیمانہ بنا کر اسے معروف پیمانے کے نام پر بیچنا جائز نہیں ہے، بھلے کسٹمر کو معلوم ہو۔ اس پیمانے کا نام نیا رکھیں۔ مثلا پہلے کیس میں اس کو کلو نہ کہیں، سو کم کلو کہیں۔ دوسرے کیس میں اس کو لیٹر نہ کہیں، سیر کہیں۔ تو حرج نہیں۔ ورنہ تو دھوکا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جس نے دھوکا کیا، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
حافظ محمد زبیر