سوال (2064)

دوران اذان کانوں میں انگلیاں رکھنے اور حیعلتین پر سر کو دونوں طرف گھمانے کی دلیل مطلوب ہے ؟

جواب

اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنا مستحب ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’اذان دیتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں داخل کرنا‘‘ [ترمذی، الصلوٰة، ۱۹۷]
پھر انھوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کا حوالہ دیا ہے کہ انھوں نے اذان دیتے وقت اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں داخل کیا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اذان دیتے وقت اپنی انگلیوں کو کانوں میں داخل کرے کیونکہ ایسا کرنا آواز کے اونچا ہونے کا باعث ہے۔[ابن ماجه، الاذان: ۷۱۰]
اگرچہ اس حدیث کی سند کمزور ہے تاہم دیگر روایات سے اس عمل کی تائید ہو تی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا ہے کہ وہ اذان دیتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے تھے [بخاری،الاذان: قبل حدیث۶۳۴]
اگر کوئی مؤذن اذان دیتے وقت انگلیاں کانوں میں نہیں ڈالتا اور وہ صرف اپنے ہاتھ کانوں پر رکھتا ہے تو اس صورت میں بھی اذان دینا جائز ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ اذان دیتے وقت اپنی انگلیاں کانوں میں نہیں ڈالتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ وصف مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان ہوا ہے [فتح الباری،ص۱۵۰،ج۲]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اہل علم اس امر کو مستحب خیال کرتے ہیں کہ اذان دیتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالی جائیں [ترمذی، الصلوٰة، باب نمبر ۳۰]
بہر حال مستحب ہے کہ موذن اذان دیتے وقت اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں رکھے۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد: 4، صفحہ نمبر:119]
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ چمڑے کے ایک لال خیمہ میں تھے، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے پھر اذان دی، میں انہیں اپنے منہ کو ادھر ادھر پھیرتے دیکھ رہا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ یمنی قطری چادروں سے بنے سرخ جوڑے پہنے ہوئے تھے، موسی بن اسماعیل اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ ابوحجیفہ نے کہا: میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ابطح کی طرف نکلے پھر اذان دی، جب «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں اور بائیں جانب موڑی اور خود نہیں گھومے، پھر وہ اندر گئے اور نیزہ نکالا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ۔
[صحیح مسلم/الصلاة 47 (503)، سنن الترمذی/الصلاة 30 (197)، سنن النسائی/الأذان 13 (644)، والزینة 123 (5380)، (تحفة الأشراف: 11806، 11817)، مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 15 (634)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (711) صحیح]

فضیلۃ العالم عبداللہ عزام حفظہ اللہ