سوال (3207)

ایک بندہ روزانہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور روزانہ کی ٹوٹل اماؤنٹ مالک کو اکاؤنٹ میں بھیجنی ہوتی ہے اور دکان والے اس پر کٹوتی کرتے ہیں لیکن وہ اپنے موبائل سے یا کسی اور دوست کے موبائل سے یا فرنچائز سے پیسے بھیجتا ہے، جس سے وہ کٹوتی کے پیسے اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو کیا وہ کٹوتی کے پیسے اس کے لیے جائز ہوں گے؟

جواب

اس میں دو چیزیں ہیں، ایک رخصت اور ایک عزیمت ہے، رخصت یہ ہے کہ اب مالک کو معلوم ہے کہ میرے پیسے تو کٹیں گے، یہ اگر رکھ لے تو جواز ہے، لیکن افضل، اولی اور تقویٰ یہ ہے کہ مالک کو بتائے کہ آپ کے پیسے کٹ رہے تھے، لیکن میں اپنے دوستوں کے ذریعے سے بھیجتا ہوں، جس کی وجہ سے کٹوتی نہیں ہوتی ہے، کیونکہ مالک خوش ہوکر دے دے گا، کیونکہ اگر اس کا رزق ہے، اس کے لیے لکھے ہوئے ہیں تو کہیں نہیں جائیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے وہ پیسے اس لیے لکھ لیے ہیں تو اللہ تعالیٰ مالک دل میں یہ بات ڈال دے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

میرے ناقص علم کے مطابق یہ مسئلہ اجارہ کا ہے، مالک نے ایک بندہ تنخواہ پر یا اجرت پر رکھا ہوا ہے۔ مالک اس سے روزانہ کی بنیاد پر اپنا نفع نقود کی شکل میں اس سے مانگتا ہے۔ اس کو پسیے بھیجنے میں اصل رقم سے کچھ کٹوتی ہوتی ہے۔ یہ بندہ اس کٹوتی والی رقم کو کسی طریقے سے بچا کر خود کے استعمال لیے رکھ لیتا ہے۔
اس کا جواب دینے سے پہلے میں اجارہ کا ہی ایک ملتا جلتا مسئلہ بتانا چاہتا ہوں جو فتاوى اللجنة الدائمة للإفتاء کی جلد 15 صفحہ نمبر 88 پر موجود ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بندہ کرایے پر مکان لیتا ہے اور پھر یہی مکان کسی اور کو کرایے پر دے دیتا ہے تو کیا اس کا یہ عمل ٹھیک ہو گا یا نہیں؟ پھر جوابا عرض کرتے ہیں کہ اگر مالک کو اس کرایے دار کے اس عمل بارے پتہ ہے تو اس کا یہ عمل ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔ جواب کی عربی عبارت اس طرح ہے۔

“إذا استأجر الإنسان محلاً أو بيتاً أو شقة أو معرضاً، جاز له أن يؤجر هذا المكان لغيره بمثل ما استأجره به أو بأكثر أو بأقل، بنفس مدة الإجارة وبشرط علم المالك ورضاه بذلك، وذلك لأن المستأجر يملك حق الانتفاع بالعين المستأجرة، فجاز له أن يستوفيها بنفسه أو بغيره , إلا أن يشترط المالك على المستأجر أن لا يؤجرها لغيره وبشرط أن لا يترتب على هذه الإجارة الجديدة ضرر للعين المستأجرة”.

اب اسی کی روشنی میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتا ہوں کہ اگر اس بندے کا یہ عمل مالک کے علم میں ہے تو یہ جائز و حلال ہے۔ اور اگر یہ مالک کے علم میں نہیں ہے اور یہ بندہ باہر باہر سے ہی اس کٹوتی والی رقم سے لطف اندوز ہو رہا ہے تو اس کا یہ عمل ناجائز وحرام ہے۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ