ڈاکٹر ذاکر نائیک کا متبادل کیا ہے؟
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو لے کر مثبت و منفی دونوں قسم کی باتیں سوشل میڈیا پر برابر چل رہی ہیں . اپنے دو ٹوک اور ٹھیٹھ جوابات کے سبب ڈاکٹر صاحب اس وقت لبرلز اور ملحدین کے نشانے پر ہیں. سلفی علماء کا ایک بڑا طبقہ ڈاکٹر صاحب کے ذریعے نوجوانوں میں سلفیت کا جو ایک سیکولر ورژن (جس میں اپنی مسلکی پہچان کو چھپانا حکمت کا تقاضا قرار پاتا ہے) پنپ رہا ہے اسے لے کر بھی فکر مند ہے. مگر میرے ذہن میں ایک سوال اور آ رہا ہے. مدارس کا ایک پورا جال برصغیر میں پھیلا ہوا ہے. لیکن جس میدان کو ڈاکٹر صاحب نے سنبھالا ہے، معاشرے کے جس طبقے کو براہ راست انہیں کی زبان میں وہ مخاطب کر رہے ہیں ہم مدارس کے فضلاء کے پاس بالخصوص صحیح عقیدہ و منہج کے حاملین کے فضلاء و علماء کے پاس اس کا کیا متبادل ہے؟ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ہمارے پاس کیا تدبیر اور اسٹریٹجی ہے؟
یہ درست ہے کہ مدارس کا اصل کام علوم دینیہ میں ماہر افراد کو میدان عمل میں لانا ہے اور یہ کام مدارس تعلیمی زوال کے باوجود کسی نہ کسی صورت انجام دے رہے ہیں. مگر سوال یہ بھی ہے کہ فی الوقت ملحدین کا ایک بڑا طبقہ اسلام پر مختلف قسم کے عقلی اعتراض کر رہا ہے، دین کے تعلق سے متعدد شبہات سادہ لوح لوگوں کے دلوں میں ڈال رہا ہے.،کفار و مشرکین کی ایک بڑی تعداد اسلام پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہے، اس طبقے کی کاٹ ہمارے پاس کیا ہے؟ ہمارے فارغین میں سے جو تھوڑے بہت انگریزی اور عصری علوم کے ماہر ہوتے ہیں بالعموم وہ یونیورسٹیوں کا رخ کر لیتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے معاشی مسائل انہیں اپنی صلاحیتوں کو دین کے حق میں استعمال کرنے کے سلسلے میں کسی حد تک رکاوٹ بن جاتے ہیں اور وہ اپنا میدان عمل کہیں اور چن لیتے ہیں. بسا اوقات ان میں سے بہت سارے عملاً دین سے دور بھی ہو جاتے ہیں. جن طلبہ کو مدارس دس سال کھلا پلا کر پالتے پوستے ہیں ان کی اعلیٰ ترین صلاحیتیں دعوت دین کی راہ میں صرف نہ ہو کر کہیں اور مصروف ہو جاتی ہیں . کیا یہ ہمارے مدارس کے لیے ایک لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟
ہم ڈاکٹر صاحب پر مثبت تنقید بیشک کریں کہ وہ ہمارا حق ہے، مگر ہم اس سوال کا جواب بھی ضرور ڈھونڈنے کی کوشش کریں کہ اس دوڑتی بھاگتی دنیا میں کام کرنے کا میدان صرف منبر و محراب نہیں ہے.. عمل کے دیگر میدانوں میں جہاں علم و بصیرت سے لیس افراد کی ضرورت ہے وہاں کون کام کرے گا؟ اس خلا کو کون پر کرے گا.. بہتر ہوگا کہ ارباب مدارس اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے غور کریں.
مدارس میں کلیۃ الدعوہ کے نام سے ضرور کچھ شعبے کام کر رہے ہیں، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ان میں پڑھایا جانے والا نصاب معاصر دعوتی تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں ناکافی ہے. عرب علماء کے تصنیف کردہ بعض کتابیں ہمیں دعوت کے علمی اصولوں سے ضرور واقف کرا دیتی ہیں مگر عملاً ہندوستانی ماحول میں دعوتی کام کرنے کے جو اپنے تقاضے اور مسائل ہیں ایک مدرسے کا فارغ بالعموم عملی زندگی میں آنے کے بعد ان مسائل اور تقاضوں سے بے خبر ہوتا ہے. اس کا علاج ہمارے پاس کیا ہے. اس سوال پر ہم سب کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے.. ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنے کے بجائے ہو سکے تو اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کریں، اس سوال کا جواب ہندوستان میں ہمارے دعوتی مستقبل کی سمت طے کرے گا. و باللہ التوفيق
عبدالغفار سلفی حفظہ اللہ، بنارس
یہ بھی پڑھیں: الله کا ذکر کثرت سے کرو