اسرائیل نے غزہ پر بمباری کر کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں سمیت ہزاروں سول اور نہتے فلسطینیوں کو تو شہید کر دیا مگر اس کے سامنے اصل ہدف بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اصل ہدف حماس کے جنگجو اور مجاہدین ہیں جنہوں نے اپنے محدود ترین وسائل کے باوجود یہ ثابت کیا کہ وہ دنیا کی جدید ترین ٹیکلنالوجی سے لیس فوج کو کیسے ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ ان کی اس مہارت کا دنیا نے مشاہدہ بھی کیا ہے۔ القدس مجاہدین کی ان کامیابیوں کا، دنیا یقین نہ کرتی مگر انہوں نے ان کامیاب حربی کاروائیوں کو ثبوت پیش کر کے منوایا ہے۔
اپنے ان حربی واروں کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر کے بتایا کہ ہم ان کو کیا سبق سکھائیں گے۔ ان مجاہدین نے ثابت کیا کہ وہ نہتے فلسطینیوں پر بم اور میزائل برسا کر انہیں تباہ تو کر سکتے ہیں مگر وہ ان جری بہادروں کا میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ حالیہ جنگ بندی کے اندر اسرائیل بھی کچھ سانس لینا چاہتا تھا کہ وقت ملنے پر حکمت عملی تبدیل کر کے دیکھ لے۔ ورنہ وہ کبھی بھی یہ عارضی جنگ بندی نہ کرتا۔ حماس کے لیڈر ابو عبیدہ کا وہ بیان بہت اہم ہے کہ ہم نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا: “کہ دنیا کی بہترین فوج ناقابل شکست ہے۔”
مغربی تجزیہ کار سکاٹ رٹر کہتا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ جنگ بندی سے پہلے اسرائیل جنگ ہار رہا تھا۔ جنگ بندی کے ساتھ ہی اسرائیل نے سارے فوجی واپس بلا لئے تھے. کیونکہ اسرائیل کے مرد لڑ نہیں پا رہے تھے. حماس انکے پچھواڑوں کو ٹھوک رہا تھا۔
بلین ڈالر کے انٹیلیجنس کا صفایا کر دیا گیا تھا۔
ماہر تجزیہ کار نتنیاہو نے جنگ کے شروع میں کہا تھا کہ اسرائیل کسی بھی معاہدے، جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے کو قبول نہیں کرے گا لیکن بعد میں حماس کی شرائط پر اسکو قبول کرنا پڑا، کیونکہ اسرائیل کے مرد ڈرے ہوئے ہیں جو آرڈز فالو نہیں کر رہے۔
حماس کی نفری نے بہت اچھا مقابلہ کیا۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی ہلاک کر دیے گئے ہیں اور سینکڑوں گاڑیاں تباہ کر دئی گئی.
اسرائیل کے پاس اب دو راستے ہیں۔
یا تو دوبارہ جنگ میں کودے اور نارتھ میں حزب اللہ سے مار کھائے اور غزہ میں حماس مارے گا۔ یا پھر جنگ بندی کو لمبا کرے. لیکن مشکل یہ ہے کہ انہوں نے آسان لوگوں یعنی بچوں اور عورتوں سے جان تو چھڑائی ہے لیکن پیچھے بچتے ہیں مرد اور فوجی. جسکا مطلب حماس اب مزید بھاری ڈیل کا مطالبہ کرے گا۔
الیاس حامد