سوال (3172)
اگر کوئی شخص نماز کے پہلے یا دوسرے تشہد میں درود ابراہیمی پڑھنا بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب
نماز ہو جائیگی، درود راجح قول کے مطابق فرض نہیں ہے، لہذا کوئی بھول جائے تو نماز ادا قرار پائیگی۔
واللہ اعلم
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
سائل:
مندرجہ ذیل روایت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
فضالہ بن عبید فرماتے ہیں کہ
سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجِلَ هَذَا ، ثُمَّ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللَّهِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، ثُمَّ لَيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَيَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ . [سنن الترمذي : 3477]
«نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نماز کے اندر دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) نہ بھیجا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس نے جلدی کی، پھر آپ نے اسے بلایا، اور اس سے اور اس کے علاوہ دوسروں کو خطاب کر کے فرمایا، جب تم میں سے کوئی بھی نماز پڑھ چکے تو اسے چاہیئے کہ وہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی ﷺ پر صلاۃ (درود) بھیجے، پھر اس کے بعد وہ جو چاہے دعا مانگے »
جواب:
ولیصل علی النبی” سے فرضیت پر استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اگرچہ الامر للوجوب ہے، لیکن یہاں قرینہ صارفہ بھی ہے کہ اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، لہذا کوئی بھول جائے تو نماز ہو جائیگی ان شاءاللہ۔ اور اھل علم کے ایک قول کے مطابق عمدا درود ترک کرنے والے کو نماز دہرانی پڑے گی۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
درود نماز میں پڑھنا مسنون ہے، پہلے تشھد کے بنسبت دوسرے میں زیادہ تاکید ہے، باقی پہلے میں تو اختلاف ہے، لہذا اس کو بنیاد بنا کر کسی کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی نماز نہیں ہوئی ہے، نماز تو اس کی ہوگی، جو روایت اوپر پیش کی گئی ہے، اس میں اس کی ہوگئی تھی، اس کو دہرانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، تو لہذا درود مسنون ہے، باقی جو فرض سمجھتا ہے، اس فرضیت صاحب موقف تک رکھا جائے، اس میں یسر اور آسانی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پہلے تشہد میں درود بعض فقہاء کے ہاں مکروہ ہے، جبکہ بعض کے ہاں مستحب ہے،
قلیل لوگوں نے مطلقا درود کو وجوب کا درجہ دیا ہے، جس کے بھول کر چھوڑنے پر سجدہ سہو ہو گا، آخری تشہد کے بارے 3 موقف ہیں، پہلا یہ کہ رکن ہے اس کے بنا نماز نہیں ہو گی، دوسرا وجوب کا ہے، تیسرا مستحب کا ہے، اور امر کے صیغے کو تعلیم و ارشاد پر محمول کیا گیا ہے، کیونکہ صحابہ نے اس بابت سوال کیا جب آیت “صلوا علیہ و سلموا” تسلیما نازل ہوئی، بہرحال امام احمد سے ایک روایت استحباب کی بابت ہے۔ بھول کر رہ جائے حرج نہیں ہے، لیکن بندہ مومن کو چاہیے کہ نماز علی وجہ المطلوب ادا کرے، ان تمام اقوال و اعمال کو بجا لائے جس پر نماز کی ادائیگی رسول اللہ علیہ الصلوات والسلام نے کی عمدا چھوڑنا اصولا درست نہیں ہے، باقی نسیاناً چھوڑنے پر سہو نہیں ہے۔
واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ