سوال

میری بیٹی نے آئی ٹی میں ماسٹر کیا ہوا ہے اور وہ  ایک آن لائن کمپنی کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے، جس کا نام ہے PEC ۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ   آپ نے سو ڈالرکی شاپ خریدنی ہے، پھر کمپنی کی پراڈکٹس میں سے کچھ چیزیں خرید کر اپنی شاپ پر  رکھنی ہیں، پھر  کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کوسیل کرے، اور جس کی شاپ ہے اسے پرافٹ ملتا ہے۔ انہیں شاپ کا رینٹ بھی دینا ہوتا ہے اور اگر یہ لوگ ان کو  50 کے قریب کسٹمرز لا کر دیں تو پھر انہیں باقاعدہ ماہانہ سیلری بھی ملتی ہے۔ اسے غالبا ڈراپ شپنگ کہا جاتا ہے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

آن لائن کاروبار جس کو ای کامرس کہا جاتا ہے، اس کی نت نئی صورتیں متعارف ہورہی ہیں، انہیں میں سے ایک ڈراپ شپنگ ہے۔ ڈراپ شپنگ کی مروجہ صورت درست نہیں، کیونکہ اس میں جو شخص خود کو مالک ظاہر کر رہا ہوتا ہے، وہ درحقیقت اس چیز کا مالک ہوتا ہی نہیں، اور نہ وہ چیز اس کی ملکیت میں ہوتی ہے۔ بلکہ وہ تو خریدار اور بائع کے درمیان ایک واسطہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اس نے گاہک ڈھونڈ کر لانا ہوتا ہے۔ ڈراپ شپنگ کاروبار میں تین لوگ ہوتے ہیں:

1۔ سپلائر (جو اصل مالک ہوتا ہے)  2۔ ڈراپ شپر ( جو خود کو مالک ظاہر کرتا ہے) 3۔ خریدار

ڈراپ شپنگ میں ہوتا یہ ہے کہ ڈراپ شپر نے خریدار سے  مالک بن کر آرڈرلے کر سپلائر تک پہنچانا ہوتا ہے، اور پھر سپلائر نے مطلوبہ پراڈکٹ خریدار تک پہنچانی ہوتی ہے۔

گویا ڈراپ شپر جس چیز کا خود کو مالک ظاہر کر رہا ہے، وہ چیز سرے سے اس کے پاس ہے ہی نہیں۔  اور یہ درست نہیں، کیونکہ نبی ﷺ نے اس چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے  جو آپ کی ملکیت اور قبضے میں نہ ہو ۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ”.(ترمذي:1232)

’’جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو خروخت نہ کرو‘‘۔

مزید فرمایا:”منِ ابتاع طعامًا فلا يبعْه حتى يستوفيَهُ” (صحيح البخاري:2136)

’جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اسے پورا وصول نہ کر لے اسے آگے فروخت نہ کرے‘۔

بعض اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ شاید ڈراپ شپر خریدار سے آرڈر لے کر سپلائر سے چیز اپنے پاس منگوا کر آگے فروخت کرتا ہے، اگر ایسے ہو تو اس خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں، لیکن حقیقت میں ایسے ہوتا نہیں۔ ڈراپ شپنگ ویب سائٹس پر یہ بات جلی حروف اور نمایاں طور پر لکھی ہوتی ہے کہ آپ نے صرف اپنی دکان کھول کر آرڈرز لینے ہیں، پراڈکٹس خریدنا اور انہیں گاہک تک پہنچانا یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے!

اوپر سوال میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے، وہ بھی عجیب و غریب ہے، اگر فرض کرلیا جائے کہ سٹور کھولنے والا اسکا مالک ہے، تو پھر اسے کسٹمر لانے پر سیلری دینے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے تو صاف نظر آرہا ہے کہ یہ جو خود کو مالک سمجھ رہا ہے یہ کسی اور کا ملازم ہے۔ لیکن پھر آپ ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں دکان کا رینٹ بھی دینا پڑتا ہے، تو کیا کسی دکان پر ملازمت کرنے والے کو اس کا رینٹ بھی دینا پڑتا ہے؟

بہرصورت  خلاصہ یہ ہے کہ کوئی کاروبار کا مالک ہے تو چیز کا اس کے قبضے میں ہونا ضروری ہے، ہاں اگر وہ  بطور سیل مین، وکیل یا کمیشن ایجنٹ بن کر  کسی کمپنی کے لیے آرڈر وصول کرتا ہے   تو یہ صورت جائز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آن لائن ٹریڈنگ کرنا کیسا ہے؟

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ