قارئین کرام ! ہمارے معاشرے میں جیسے دیگر اعمال میں مسنون طریقہ چھوڑ دیا گیا ہے بلکل اسی طرح عیدین میں بھی سنت طریقے پر عمل نہیں کیا جاتا ۔
ذیل میں ہم عید کے حوالے سے کچھ سنن کا ذکر کرتے ہیں جنہیں یا تو بلکل چھوڑ دیا گیا ہے یا بہت کم لوگ ان پر عمل کرتے ہیں ۔
آئیں ملاحظہ فرمائیں ! اور سنت کی مطابق عید ادا کر کے اجر پائیں ۔

1 عید الفطر کی نماز  سے قبل کوئی میٹھی چیز کھانا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز عید کے لیے نکلے سے پہلے کچھ کھجوریں کھا کر نکلتے تھے ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

كَانَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نہ نکلتے یہاں تک کہ کچھ کھجوریں نہ کھا لیتے ۔
(صحیح بخاری : 953)
جبکہ ہمارے معاشرے میں نماز عید کے بعد تو لوگ میٹھیں چیزیں کھاتے ہیں لیکن نماز سے قبل نہیں کھاتے جو مسنون ہے ۔

2 تکبیرات پکارنا

مرد حضرات کو چاہیے کہ وہ شوال کا چاند دیکھنے سے لیکر عید سے فارغ ہونے تک تکبیرات پکاریں ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

﴿يُريدُ اللہ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللہ عَلى ما هَداكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ﴾

اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ تم (رمضان کے روزوں کی) گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر ان کی تکبیر کہو اور اس کا شکر ادا کرو ۔
(البقرة : 185)
نافع رحمہ اللہ بيان کرتے ہیں :

أنه كانيغدو يوم العيد، ويكبر ويرفع صوته، حتى يبلغ الإمام .

ابن عمر رضی اللہ عنہما عید کے دن بلند آواز سے تکبیرات پکارتے روانہ ہوتے ۔ اور یہ سلسلہ امام کے آنے تک جاری رکھتے ۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 5619)
علامہ البانی  فرماتے ہیں :
یہ حدیث عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے جہری آواز سے تکبیریں کہنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے اور مسلمانوں کا اس پر ہمیشہ اس پر عمل رہا ہے ، اگرچہ اب بہت سے لوگوں نے دینی جذبہ کی کمزوری اور اظہار سنت میں جھجک کی بنا پر اس بارے میں اس قدر سستی شروع کردی ہے کہ یہ سنت قصہ پارینہ بنتی نظر آتی ہے ۔
(سلسلہ الضعيفہ بحوالہ مسائل عیدین : 32)

3 مسنون وقت میں نماز عید ادا کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عید کی نماز جلدی ادا کی جاتی تھی ۔
جناب یزید بن خمیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ :

خَرَجَ عَبْدُ اللہ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ .

رسول اللہ کے صحابی عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو ناپسند کیا اور کہا : ہم تو اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔
(سنن ابی داؤد : 1136)

جبکہ ہمارے معاشرے میں اکثر دس بجے سے گیارہ بجے عید کی نماز ادا کی جاتی اور اسی طرح ہم نے مسنون وقت کو بھی چھوڑ دیا ہے ۔
نیز آپ نے عید الاضحی کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا .

یقیناً پہلا کام جس کے ساتھ ہم اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں ، کہ ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر واپس جاکر قربانی کرتے ہیں ۔ جس شخص نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا ۔
(صحیح بخاری : 951)

4 عیدگاہ میں نماز عید ادا کرنا

اکثر لوگ مسجد میں نماز عید ادا کر دیتے ہیں عید گاہ کی طرف نکلنے کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ مسنون یہ ہے کہ عید کی نماز عیدگاہ میں ادا کی جائے ۔ سیدنا ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ :

كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے ۔
(صحیح بخاری : 956)
علامہ عینی حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عید کی نماز ادا کرنے عیدگاہ کی طرف نکلا جائے اور بلا ضرورت مسجد میں نماز عید نہیں پڑھے جائے گی ۔
(عمدة القاري 281/6)
امام بغوي فرماتے ہیں : سنت یہ ہے کہ نماز عید کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلا جائے البتہ عذر کی صورت میں نماز مسجد میں ادا کی جائے گی ۔
(شرح السنة : 4/294)

5 عیدگاہ میں سترے کا اہتمام کرنا

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

أَنّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ أَمَرَ بِالْحَرْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹا نیزہ گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی کیا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری : 494)
لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں نہ عیدگاہ جانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ ہی سترہ قائم کرنے کا ۔
نیز واضح ہو کہ اگر سامنے دیوار وغیرہ تو پھر سترہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں ۔

6 مسنون تکبیرات کہنا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

أَنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى فِي الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ۔
(سنن ابی داؤد : 1150)
امام احمد اپنی مسند میں بارہ تکبیرات کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

وَأَنَا أَذْهَبُ إِلَى هَذَا.

میرا طریقہ اس کے مطابق ہے ۔
(مسند احمد : 6688)
جبکہ ہمارے معاشری کی اکثریت اس سنت کے برعکس عمل کرتی ہے ۔

7 نماز عید میں مسنون قرأت کرنا

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عيد کی پہلی رکعات میں سورہ الاعلی اور دوسری میں سورہ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے ۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

كَانَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ قَالَ وَإِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدُ وَالْجُمُعَةُ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ يَقْرَأُ بِهِمَا أَيْضًا فِي الصَّلَاتَيْنِ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعے میں (سَبِّحِ اسْمَ رَ‌بِّكَ الْأَعْلَى) اور (هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ) پڑھتے۔ اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن اکھٹے ہوجاتے تو آپ یہی دو سورتیں دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے۔
(صحيح مسلم : 2028)

عیدین میں مسنون قرأت بھی صرف سلفی حضرات کے ہاں ہی پائی جاتی ہے ورنہ اکثر اس سنت پر بھی عمل نہیں کیا جاتا ۔ نیز ایک روایت کی مطابق آپ سورہ ق اور سوره قمر پڑھتے تھے لہذا یہ سورتیں بھی مسنون ہیں ۔
ملاحظہ ہو : صحیح مسلم .

8 عیدگاہ میں خواتین کا شرکت کرنا

ہمارے معاشرے میں عورتیں نماز عید ادا کرنے نہیں نکلتیں اور ان کے گھر والے ان کا عیدگاہ جانا مناسب نہیں سمجھتے حالانکہ عید سے ایک دن قبل عید کی خریداری کے نام پر بازاروں کا رخ کرتی ہیں وہاں ان کی غیرت بیدار نہیں ہوتی ! سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تاکہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا :

يَا رَسُولَ اللہ ! ‏‏‏‏‏‏إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ :‏‏‏‏ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .

یا رسول اللہ ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس ( پردہ کرنے کے لیے ) چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔
( صحیح مسلم : 351)
اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد ، علامہ ابن قدامہ نے ، بعض ایسے حضرات کے اقوال نقل کیے ہیں ، جو عورتوں کا عیدگاہ جانا پسند نہیں کرتے ۔ پھر اس بارے میں انتہائی زور دار ، مؤثر اور عظیم الشان تبصرہ صرف ایک جملے میں بایں الفاظ میں کیا ہے کہ : وسنة رسول الله أحق أن تتبع .
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سب سے زیادہ اتباع کی حق دار ہے ۔
(المغنی 265/3 مسائل عیدین از ڈاکٹر فضل الاهی حفظہ اللہ : 26)

9 بغیر منبر خطبہ عید دینا

ہمارے معاشرے میں اکثر خطیب حضرات عید کا خطبہ منبر پر دیتے ہیں جو مسنون نہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے خطبہ کے لیے منبر استعمال نہیں فرماتے تھے اور یہی مسنون طریقا ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ يَوْمَ الْعِيدِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ؟ فَقَامَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَرْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏خَالَفْتَ السُّنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ يَوْمَ عِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا .

مروان عید کے دن عید گاہ منبر لے گئے، اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : مروان ! آپ نے خلاف سنت عمل کیا ہے ، عید کے دن منبر لے آئے، جب کہ (نبي صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) وہ نہیں نکالا جاتا تھا اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا جب کہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا تھا ۔
(سنن ابن ماجة : 1275)

10 عید کے دن خواتین کو نصیحت کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خواتین کو وعظ و نصیحت فرمائی ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو عورتوں کی طرف آئے اور انہیں نصیحت فرمائی۔
(صحیح بخاری : 978)
امام عطاء رحمہ اللہ نے جب یہ حدیث اپنے شاگرد ابن جریج کو بتلائی تو انہون نے کہا :

أَتَرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ الْآنَ أَنْ يَأْتِيَ النِّسَاءَ فَيُذَكِّرَهُنَّ حِينَ يَفْرُغُ ؟

كیا امام پر یہ بات لازم ہے کہ وہ خطبہ عید سے فارغ ہوکر عورتوں کے پاس جا کر انہیں نصیحت کرے ؟
آپ نے فرمایا :

إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ أَنْ لَا يَفْعَلُوا .

یقینا ان پر ایسا کرنا لازم ہے اور انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس (سنت) پر عمل نہیں کرتے ۔
(حوالا بالا)

11 عیدگاہ سے واپسی پر راستہ بدلنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس راستہ سے عیدگاہ تشریف لے جاتے واپسی پر اس راستہ کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرتے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل کر آتے۔
(صحیح بخاری : 986)
لیکن افسوس کہ عید کے دن اس سنت پر عمل کرنا بھی ہم نے چھوڑ دیا ہے۔

12 مسنون الفاظ سے عید ملنا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب عید کے دن ایک دوسرے سے ملتے تو ایک دوسرے کو : تقبل الله منا ومنك . کہتے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے جبیر بن نفیر کے متعلق نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :
كان أصحاب رسول الله إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض :

تقبل الله منا ومنك .

رسول الله کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب عید کے دن ایک دوسرے سے ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے : اللہ تعالی ہم سے اور تم سے قبول فرمائے ۔
(فتح الباری : 446/2)
آج کل ہمارے معاشرے میں جب ہم ایک دوسرے سے عید ملتے ہیں تو عید مبارک وغیرہ کے لفظ ادا کرتے ہیں لیکن جو مسنون الفاظ ہیں وہ استعمال نہیں کرتے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے سے عید ملتے وقت وہ الفاظ ادا کریں جو صحابہ کرام ادا کیا کرتے تھے ۔

محمد سلیمان جمالی