بیچارے ملحد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کائنات کی خوبصورتی سے بھی محظوظ نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ خوبصورتی بذات خود کسی چیز میں نہیں ہوتی۔ یہ تو ہمارا دماغ ارتقائی عمل سے گزرتے گزرتے ان چیزوں کو اس طرح سے محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ اسے خوبصورت لگنے لگتی ہیں۔ یوں خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اسکی مجموعی کارکردگی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
کانٹ نے کہا تھا کہ خوبصورتی محض ہمارے دماغ کا دھوکا ہے۔
رسل نے کہا کہ ریاضی میں شاعری جتنی ہی خوبصورتی ہے لیکن ان دونوں میں کمال انسان کا اپنا ہے، نہ کہ کسی خدا کا۔
ڈاکنز کہتا ہے کہ بےٹھوون کی سمفنی یا شیکسپیئر کے شاہ پارے یقیناً خوبصورت ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس خوبصورتی کا خالق کوئی خدا ہے۔

خوبصورتی کی بیشمار مثالیں ایسی ہیں کہ انکا تعلق نہ تو انسان کی بقاء سے ہے، نہ نیچرل سلیکشن سے اور نہ انکا کوئی مادی فائدہ ہے۔ مثلاً قدرتی مناظر، پھول، پودے باغات، بیشمار خوبصورت جانور اور پرندے، پہاڑ، دریا، سمندر، آسمان وغیرہ ۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں خوبصورت نہ بھی ہوتیں تو بھی انکی زندگی اور بقاء کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ بلکہ بہت سی چیزوں کی خوبصورتی تو انکی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ پھول توڑ لئیے جاتے ہیں، درخت کاٹ دئیے جاتے ہیں، جانوروں کو مار کر انہیں ڈرائینگ رومز میں سجا دیا جاتا ہے، خوبصورت انسانوں بالخصوص عورتوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
اور مادی لحاظ سے بھی خوبصورتی نقصان دہ ہے کہ ہم وقت اور پیسہ خرچ کر کے دور دراز کا سفر کرتے ہیں، سفر کی تکالیف برداشت کرتے ہیں، کام کاج کو کئی دن کیلئے تج دیتے ہیں۔۔۔ کس لیے؟ صرف دنیا کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کیلئے ۔۔۔

قدرت کی خوبصورتی کی نقالی سے ہی انسان نے خوبصورت تخلیقات کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع کیا جو رکنے میں ہی نہیں آ رہا۔ شاعری، نثر، ڈراما، مصوری، آرکیٹیکچر، موسیقی، انجنئیرنگ، ٹیکنالوجی وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

تو سوال تو پھر وہی ہے کہ قدرت میں وہ خوبصورتی کہاں سے آئی جس نے ہمیں اسقدر متاثر کیا؟

اور اگر یہ کہا جائے کہ خوبصورتی ان اشیاء کا ذاتی وصف نہیں بلکہ انسانی دماغ اپنی ارتقائی وائرنگ کی وجہ سے ان چیزوں کو خوبصورتی “سمجھنے” کا عادی ہو گیا ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کی ایسی تشکیل کیونکر ہوئی؟ یعنی ہمارے اندر ایک جمالیاتی حس ہے تو وہ کہاں سے آئی اور کیوں آئی؟

صرف یہ کہہ دینا کہ یہ انسانی دماغ کا ارتقائی مسئلہ ہے، یہ تو انتہائی سطحی بات ہے۔ جیسے بقول ڈینئیل ڈینیٹ کے سیب خوبصورت نہیں ہمارا دماغ اسے خوبصورت باور کرواتا ہے تاکہ ہم اسے کھائیں۔ عورت خوبصورت “ہے” نہیں، مرد کا دماغ اسے خوبصورت “دکھاتا ہے”، یا عورت کو مرد خوبصورت “لگتا ہے” تاکہ وہ اسے اپنائے اور نسل چلے۔۔۔۔

لیکن درحقیقت یہ بات انکے اپنے نیچرل سلیکشن کے نظریے کے ہی خلاف ہے۔ یعنی سروائیول کیلئے جانداروں کو بہت سے کام مجبوراً کرنا پڑتے ہیں۔ مثلاً نینڈرتھل انسان کے خاتمے کی دو تھیوریز ہیں: ایک یہ کہ جدید انسان نے جنگوں میں انکی نسل کشی کر دی۔ لیکن زیادہ جاندار اور ڈی این اے کے شواہد کی بنیاد پر زیادہ مضبوط تھیوری یہ ہے کہ جدید انسان اور نینڈرتھلز میں آپس میں نسل کشی نہیں بلکہ تناسل ہوا اور آہستہ آہستہ جدید انسان کے جینز غالب آ گئے اور نینڈرتھلز کی خصوصیات انسانی جسم سے ختم ہوتی چلی گئیں۔۔۔۔ تو جدید خوبصورت انسان نے بدصورت نینڈرتھلز کے ساتھ قریبی تعلق کیوں گوارا کیا؟

جب انسان غاروں میں رہتا تھا تب بھی انہیں بساط بھر سجاتا تھا، جس کے شواہد موجود ہیں۔ کیوں؟ نہ بھی سجاتا تو بقاء کو تو کوئی فرق نہ پڑتا۔۔۔

بلکہ ڈارون نے تو خود یہ اعتراف کیا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک مخلوق دوسری مخلوق کو کسی طرح سے بے لوث فائدہ پہنچاتی ہے تو اسکا “سروائیول آف دی فٹسٹ” والا نظریہ فلاپ ہو جائے گا۔ لیکن پھر اسے فلاپ ہونے سے “زبردستی” بچانے کیلئے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ یہ خوبصورتی ارتقاء کے دوران ہونے والا ایک اتفاقی امر ہے اور ممکن ہے کہ جانداروں میں خوبصورتی کا باعث بننے والے اعضاء کا ماضی میں کوئی اہم کردار ہو جو اب ختم ہو گیا ہو۔۔۔!!!

اور کیا اس بحث کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اگر ہمارے اندر جمالیاتی حس نہ ہوتی تو ہم اس قدر تخلیقی مخلوق نہ ہوتے؟ قدرت کی خوبصورتی کو محسوس کر کے اسکی نقالی میں بہت سی خوبصورت چیزیں تخلیق نہ کرتے۔ لیکن ملحدین سے سوال بنتا ہے کہ “بے مقصد” تخلیقات کا کیا فائدہ ہے۔ اگر ہمارے دماغ کی وائرنگ چیزوں کو خوبصورت دکھاتی ہے (جبکہ انکے اندر کوئی ذاتی خوبصورتی نہیں)۔۔۔ اور پھر ہم خواہ مخواہ اپنی تخلیقات کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ کیوں؟ کیوں ہم اس “فضول کام” پر وقت، پیسہ، صلاحیت اور توانائی “ضائع” کرتے ہیں؟ کیوں ہم دستیاب زمینی وسائل کو ایک بیکار مقصد کیلئے ضائع کرتے چلے جا رہے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ملحد کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں۔ بلکہ وہ اس پیراڈوکس کو سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔

اسکے پاس اسکا بھی کوئی جواب نہیں کہ بعض چیزیں بعض انسانوں کو خوبصورت اور بعض کو بدصورت کیوں لگتی ہیں؟ مثلاً ایک پھٹی ہوئی جینز کو خوبصورت سمجھ کر بہت سے لوگ سینکڑوں ڈالر خرچ کر دیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اسکی بدصورتی کی بدولت اسے گھر پر پوچا لگانے کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔ کیوں؟

یا ماضی میں جو چیزیں بدصورت سمجھی جاتی تھیں، اب وہ خوبصورت کیوں سمجھی جاتی ہیں؟ مثلاً ہم جنس پرستی ماضی میں ایک گھناؤنا فعل تھا، اب خوبصورت کیسے ہو گیا؟ کیوں؟

لیکن ہٹ دھرمی اور تکبر کی وجہ سے خوبصورتی کے خالق، خدا پر ایمان لانے کی بجائے وہ اب یہ کہتا ہے کہ ہاں، خوبصورتی کی تخلیق ایک بیکار کام ہے۔ چنانچہ اب پوسٹ ماڈرنزم کے زیر اثر آرٹ اور ادب کا بھرکس نکالنے کا کام شروع ہے۔ آپ میٹرکس اور اس جیسی فلموں اور ناولوں کو دیکھیں تو مشینیں انسان پر قابو پانے کے بعد ایک انتہائی بدصورت دنیا تخلیق کرتی ہیں جہاں ہر پرزہ اپنا فنکشن پورا کرتا ہے اور بس۔۔۔اسی طرح 1984 جیسے ناول اور Equilibrium جیسی فلموں میں انسانی جذبات سے مکمل صرف نظر کرتے، بلکہ ان کو مکمل طور پر دباتے ہوئے ایک جبر پر مبنی ٹوٹیلی ٹیرئین سوسائٹی تخلیق کی جاتی ہے۔۔۔جہاں آرٹ جرم بن جاتا ہے، اور تنوع کی خوبصورتی کو ختم کر کے یکسانیت کی بدصورتی کو ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔!!!

بس مسئلہ یہ ہے کہ ملحد خدا کو نہیں ماننا چاہتا، بلکہ خود خدا بننا چاہتا ہے، پر مانتا یہ بھی نہیں۔۔۔!!!

(ڈاکٹر رضوان اسد خان)