اختلاف رائے جیسے موضوع پر بات کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے، کیوں کہ اختلاف کے اندر تنازعات پیدا ہونے کی گنجائش باقی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتحاد کے فلسفے کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
کیا اتحاد سے مراد سب انسانوں کا یکساں سوچنا اور مشترک اعمال سر انجام دینا ہے؟
یا اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مسلمان اپنے درمیان پائے جانے والے مختلف اختلافات کے باوجود خود کو ایک کمیونٹی تصور کریں؟
اس مسئلہ کے حل کے لیے ضروری ہے کہ اختلافِ رائے کو تسلیم کیا جائے کیوں کہ اختلافِ رائے انسانی زندگی کا حصہ ہے اور اس سے مسائل اورتنازعات تب جنم لیتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کے اختلافات کو قبول نہیں کرتے اور یہی رویہ ہے جو ہمیں اختلاف کی طرف نہیں بلکہ باہمی کشمکش کی طرف لے جاتاہے۔
امت کا اختلاف اس وقت تک رحمت ہے جب تک یہ علمی حلقوں اور علماء کے دائروں میں محدود رہے لیکن جب یہ اختلاف علمی اجتہاد و ارتقاء کی بجائے ایک دوسرے کو منہج سے نکالنے اور حصولِ جاہ و منزلت کے لئے استعمال ہونے لگے تو پھر یہ اختلاف باعثِ رحمت و ثواب نہیں بلکہ باعث زحمت و عذاب بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ ہرشخص کوچہ و بازار میں اختلافی مسائل کو ہوا دینے لگتا ہے، اور فروعات میں الجھ کر ہمہ وقت ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو کر مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اس ماحول میں اختلافات دشمنی کا روپ دھار لیتے ہیں اور مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا بن جاتا ہے۔ باہمی محبت و مودت کے تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور مسلمان ہو کر بھی ایک دوسرے کو دشمنان اسلام سے بدتر سمجھنے لگتے ہیں۔
لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا پر پچھلے چند ہی سالوں سے اختلاف رائے کی کچھ ایسی شکلیں نمودار ہوئی ہیں،جھنہوں نے الگ ہی شور و غل مچا رہا ہے، تنقید برائے اصلاح کا دور دور تک نام نشان نہیں، بس اس کی جگہ تضحیک و تحقیر، بغض و عناد اور تمسخر و استہزاء نے لے لی ہے، عجیب و غریب سماں ہے، فضا اس قدر نفرت آلود اور زہر آلود ہوچکی ہے کہ اب اس کی ہواؤں سے خون کی بو آنے لگی ہے۔
رائج ہے میرے شہر میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف اسے مار ڈالیے
حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں افراط و تفریط کی اتنی پگڈنڈیاں معرض وجود میں آگئی ہیں کہ اعتدال کی راہ راہِ گم گشتہ بن چکی ہے، ہر شخص اپنا تعلق سلف سے جوڑتا ہے مگر سلف کا طرز عمل اپنانے میں دوری اختیار کرتا جا رہا ہے، بات جب اصلاحات و درستگی سے اوپر اٹھ کر مقدس داداگیری اور دھونس جمانے تک پہنچ جاتی ہے تو وہاں تہذیبی و اخلاقی روایتیں ایسے ہی دم توڑنے لگتی ہیں اور تبھی نئی نئی مہذب گالیاں لفظی غلاف چڑھائے ہوئی مارکیٹ میں لانچ ہوتی ہیں جو بہر حال افسوس ناک ہے۔
علمی تنقیدات کے جواب میں سوشل میڈیا پر ذاتیات پر بھدے جملے اور سطحی قسم کی پھکڑ بازی سے، نہ صرف آپ کا اپنا وقار مجروح ہوتا ہے، بلکہ آپ جس مکتب فکر سے انسلاک رکھتے ہیں، اس کی علمی بے مائگی بھی بخوبی عیاں ہوتی ہے۔
نیز اس غیر علمی رویے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے آپ کے پاس بدزبانی اور طنز و تمسخر کے علاوہ کوئی ایسا مضبوط علمی سرمایہ نہیں ہے جو مہذب علمی مجلسوں میں پیش کیے جانے کے لائق ہو۔
علما و مشائخ کو باہمی اتفاق کے مواقع سے زیادہ، اختلاف کے مواقع پر شرافت نفسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، یہ وہ شرافت ہے جسے حدیث کے محاورے میں ‘حیا’ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اسے ایمانی شخصیت کا جزو لازم بھی قرار دیا گیا ہے۔
اس لیے خدارا ان چپقلشوں کو چھوڑیے، اپنے اپنے میدان میں سر جوڑ محنت کرکے امت کو فائدہ پہنچائیے، اس امت کو آپ سب کی اشد ضرورت ہے، باہم دست و گریبان اس قدر ہو چکے کہ اب اس کی زکاۃ بھی واجب ہوچکی ہوگی اس لیے اب اس کا کوئی فائدہ نہیں، اپنی جماعت کا لائحہ عمل تیار کیجیے، زمانے کی رفتار سے اپنی رفتار ملا کر چلیے، یہی وقت کا تقاضا اور اس کی آواز ہے۔

کامران الٰہی ظہیر