فرمائشی تحفہ بھیک ہی کی ایک قسم ہے، انسانی مروت اور عزت نفس کے خلاف ہے، بدقسمتی سے بہت سے لوگ اس کو کوئی مذموم اخلاق نہیں سمجھتے۔ میرے شیخ جن سے میں نے بیسیوں کتب پڑھیں اور ان سے انتہائی گہرا اور محبت والا تعلق ہے، ایک مرتبہ میں نے ان سے نونیہ ابن قیم کی ایک شرح “بطور تحفہ” مانگ لی۔ اس موقعہ پر انہوں نے میری اچھی طرح تادیب کی اور سمجھایا کہ یہ عادت کس قدر بری ہے۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص اپنے گاؤں سے دو کلو دیسی گھی لے کر آیا اور ایک صاحب نے یہ کہہ کر اس پر قبضہ کر لیا کہ “یہ تو آپ کی طرف سے تحفہ ہو گیا نا” اور وہ شخص مارے شرم کے کچھ کہہ بھی نہیں سکا۔
بعض دفعہ آپ کسی سے کوئی چیز مانگ لیتے ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے مروتاً اپنی چیز آپ کو دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اگر صاف انکار کرے تب بھی برا بنتا ہے اور اس طرح ہم کسی کی چیز بغیر اس کے طیب نفس کے ہتھیا لیتے ہیں۔ بالفرض سامنے والا اس چیز کا برا نا بھی مانے تو کم از کم یہ مانگنے کی عادت فی نفسہ شریعت میں ناپسندیدہ اور متعدد احادیث کی رو سے مذموم تو ہے ہی۔
یہ بھی پڑھیں: تحفہ دینے کے بعد واپس لینا
اس مذموم اخلاق سے باز رکھنے والی وہ حدیث مبارکہ بھی ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (ازهد فيما في أيدي الناس) لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے رغبت رہو، انسان کو اپنے اندر شان استغناء پیدا کرنی چاہیئے، جو بتکلف اس کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے غنی کر ہی دیتے ہیں۔
امید ہے اس پوسٹ کے نیچے کوئی نونیہ ابن قیم کی وہ شرح نہیں مانگ لے گا جو پھر مجھے مل ہی گئی تھی۔
سید عبداللہ طارق