سوال

ہمارے ماموں نے ہماری امی کو گھر تحفے میں دیا ۔ ویسے یہ گھر پہلے ہمارے پھوپھا کے نام تھا، ان سے ماموں نے خرید کر امی کو تحفے میں دیا۔اس کے بعد یہ گھرماموں کی   موجودگی میں امی کے نام ہوگیا۔  اس وقت اس گھر کی مالیت انڈین پیسے کے مطابق (6500000) پینسٹھ لاکھ تھی۔کچھ عرصہ بعد ماموں نے ایک ایگریمنٹ بنایا۔جس میں اس پیسے کو امی پہ لون دکھایا۔جس پر امی نے پوچھا کہ یہ ایگریمنٹ کیوں بنایا ہے تو ماموں نے جواب دیا کہ خاندان کا منہ بند کرنے کے لئے بنایا ہے۔اس کے بعد اس گھر کو لیکر  مسئلے شروع ہوگئے۔جس پہ ہماری امی نے ہمارے ماموں کو کہا میں تم کو 65 لاکھ واپس کر دیتی ہوں۔ماموں نے کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہیے، بلکہ یہ گھر آپ کا ہے ،اور آپ کے بعد آپ کی بیٹیوں کا ،  آپ کے شوہر کا بھی نہیں ہے۔جس وقت یہ بات ہوئی ،اس وقت ماموں،ممانی،امی، میں اور میری بہن اور ہمارے ابو موجود تھے۔

اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ امی کے انتقال کے بعد، ابو نے یہ گھر ہم تینوں بہنوں کے نام کروا دیا۔  جب ابو گھر ہم تینوں کے نام کروانے جارہے تھے، تو ماموں کو انڈیا فون کرکے بتایا، تو ماموں نے کہا :یہ گھر تو امی کی زندگی میں ہی ان تینوں بہنوں کے نام کردینا چاہیے تھا۔اب امی کے انتقال کے دو سال کے بعد ماموں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے یہ قرضہ دیا تھا، اور اب مجھے یہ گھر پورا چاہیے، اور میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، اب اس بات کی گواہ میں اور میری بہنیں اور ہمارے ابو ہیں، لیکن ماموں اور ممانی کہتے ہیں: ہمیں کچھ یاد نہیں۔ برائے مہربانی اس معاملے میں ہماری شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مذکورہ طویل سوال میں ہمیں یہ بات سمجھ آئی ہے کہ سائلہ کے ماموں نے ان کی والدہ کو گھر تحفہ میں دیا تھا، لیکن والدہ کی وفات کے بعد وہ اس ہبہ اور تحفہ سے انکاری ہوگئے ہیں۔

اس قسم کے گھریلو معاملات اور تنازعات میں حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن ہمارے سامنے جو صورتِ حال رکھی گئی ہے،  اس کے مطابق ماموں کا رویہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے اپنی بہن کو جو گھر تحفے میں دیا تھا، وہ  اس بہن کی ملکیت میں چلا گیا تھا، اور ان کی وفات کے بعد وہ گھر ان کے ورثا  میں بطور وراثت  منتقل ہوگیاہے۔ ماموں کا واپسی کا مطالبہ درست نہیں ہے۔تحفہ دے کر اسے واپس لینا، اس پر سخت وعید موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:«العَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالعَائِدِ فِي قَيْئِهِ»[صحيح البخاري :2621]

’تحفہ دے کرواپس لینے والا، قے کرکے چاٹنے والے کی طرح ہے‘۔ایک اور روایت میں الفاظ ہیں:

«العَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالكَلْبِ يَقِيءُ ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ»[صحيح البخاري :2589]

’تحفہ دے کر واپس لینے والا، کتے کی طرح ہے، جو قے کر تا ہے، پھر اسے چاٹتا ہے‘۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ’کسی کے لیے حلال اور جائز نہیں کہ وہ تحفہ یا صدقہ دے کر، اسے واپس لے‘۔ [صحيح البخاري :3/164]

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ