نقدِ روایات میں منہجِ محدثین کی تشریح و وضاحت کے حوالے سے ایک اہم کتاب
حافظ الحکمی حفظہ اللہ ہمارے استاد محترم ہیں (بلکہ میرے مقالے کے مشرف بھی تھے) منہجِ محدثین کو بڑے بہترین اور آسان انداز میں بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں.
محدثین کے منہج کے بیان میں اور متقدمین و متاخرین میں تفریق کا ذہن رکھنے والوں کے رد میں آپ کی مستقل تصنیف بھی ہے..۔ (جس کا مستقل تعارف یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے)
کتاب التمییز ہم نے آپ سے سبقا سبقا پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے.. وللہ الحمد.. سالہا سال اس کتاب کو پڑھانے کے بعد آپ نے اس کی یہ تحریری شرح بنام ’فتح العزیز‘ مرتب فرمائی ہے.. یقینا باذوق لوگوں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔
کتاب ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اور مقدمے کے اندر گویا پوری کتاب کا خلاصہ بھی بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ کتاب علومِ حدیث کی دقیق ترین شاخ ’علم العلل’ سے متعلق ہے۔ علت سند میں بھی ہوتی ہے اور متن میں بھی اور بعض دفعہ دونوں جگہ بھی ہوتی ہے۔ امام صاحب نے سب کی مثالیں ذکر کی ہیں، لیکن زیادہ مثالیں ایسی ہیں جن میں علت متن کے اندر ہے۔
شیخ حفظہ اللہ شرح کے لیے اس کتاب کو ہی کیوں اختیار کیا؟
کیونکہ علم العلل اور نقد الروایات شیخ حفظہ اللہ کا پسندیدہ موضوع ہے، اور اس میں عام طور پر طلبہ کو کافی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا شیخ حفظہ اللہ نے اس کتاب کو بطور ایک تجربہ اور تمرین گاہ کے اختیار کیا ہے، تاکہ طلبہ اس دقیق علم کو براہ راست اس فن کے جلیل القدر محدث کی جلیل القدر کتاب اور اس میں دی گئی عملی مثالوں سے سیکھ سکیں!
شیخ حفظہ اللہ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
“والحاصل مما سبق تقريره أن الإمام مسلماً قد أكثر في كتاب (التمييز) من نقد المتن، وأن نقده للمتن لا يختلف عن نقده للسند، إذ إنه يُبرز العلة في الجميع من خلال المعارضة بين الروايات على المدار وإعمال قرائن الترجيح، ونقده هذا جارٍ على طريقة من سبقه من النقاد كما صرح بذلك في مقدمة كتابه، وهي الطريقة التي جرى عليها العمل في كتب العلل والمصنفات المسندة المُعلَّلة.
ومما يُؤسف له أن منهج المحدثين هذا قد صار مستغرباً في هذا الزمن – لدى الكثير من المنتسبين لعلم الحديث، فلا يكاد يُذكر نقد المتن إلا تبادر إلى أذهانهم أن الحديث قد عُورض بآية من القرآن، أو بمتن حديث آخر، أو شيء من تلك المقاييس التي تجرى المعارضة بها عند الفقهاء؛ بل لقد بلغ الأمر ببعض المقتنعين بتلك المقاييس التي أن نسب العمل بها إلى الإمام مسلم في هذا الكتاب، مع تصريح مسلم بمنهجه في مقدمة كتابه، وتطابق نقده للأحاديث التي أوردها مع ما ذكره في المقدمة، وذلك كافٍ في دفع نسبة تلك المقاييس إليه”. [ص 15]
اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ حفظہ اللہ نے اس کتاب کو اس لیے بھی اختیار کیا ہے، کیونکہ بعض اہل علم اس قسم کی کتب علل یا اس میں بیان کردہ مثالوں سے تعلیل حدیث کے وہ ضوابط اخذ کرتے ہیں، جو در حقیقت محدثین کا منہج نہیں ہے۔
مصنف جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک بہترین مدرس بھی ہیں، لہذا اس شرح کا انداز تدریسی ہے، امام مسلم نے چونکہ التمییز میں 25 احادیث کو ذکر کیا ہے، لہذا شیخ حفظہ اللہ نے ان پچیس احادیث کو اس طرح حل کیا ہے، جیسا کہ ایک استاذ اپنے شاگردوں کو تخریج اور نقدِ حدیث کا طریقہ سمجھا رہا ہوتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے پڑھانے والے اس انداز سے ان پچیس احادیث کو ہی تفصیل سے دیکھ اور سمجھ لیں تو یقینا بہت حد تک حدیث کی تخریج، جمع طرق، مدار و ملتقی اور اس میں رواۃ کی موافقت و مخالفت کی پہچان اور اس بنیاد پر تعلیل و تحلیل اور پھر صحت و ضعف کے حوالے سے حکم کے طریقہ کار سے شناسائی ہو جائے گی. ان شاءاللہ۔
اس کتاب فتح العزیز کو پی ڈی ایف فائل میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے:
فتح العزيز بشرح نقد الإمام مسلم في كتاب التمييز۔ حافظ الحكمي
#خیال_خاطر