’’مجھے نہیں پتا۔‘‘، ’’میں نہیں جانتا۔‘‘، ’’مجھے علم نہیں۔‘‘، ’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ مسئلہ کیسے ہے۔‘‘، ’’میں نے اس متعلق کوئی روایت نہیں سنی۔‘‘، ’’ہمیں ان مسائل سے باز رکھو۔‘‘، ’’میں اس بارے فتوی دینے کی جراءت نہیں رکھتا ۔‘‘، ’’میں اس مسئلے میں فتوی نہیں دیتا۔‘‘، ’’میرے پاس اس کا جواب نہیں ۔‘‘، ’’میرے علاوہ کسی سے پوچھ لیں ۔‘‘، ’’علماء سے سوال کر لیں ۔‘‘، ’’مجھے اس مسئلے پر بات کرنے سے ہیبت ہوتی ہے۔‘‘، ’’میں اس سوال سے گھبراتا ہوں۔‘‘، ’’اس کے جواب کی مجھ میں طاقت نہیں۔‘‘، ’’مشتبہ مسئلہ ہے۔‘‘، ’’کافی پیچیدہ سوال ہے۔‘‘، ’’اس مسئلے پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔‘‘، ’’اس میں لوگوں کا اختلاف ہے ۔‘‘، ’’اس میں اختلاف کیا گیا ہے ۔‘‘، ’’مجھے اپنی سلامتی پسند ہے۔‘‘، ’’مجھے عافیت پسند ہے ۔‘‘، ’’مجھے اس کے جواب سے معذرت خواہ سمجھیں۔‘‘

یہ وہ چند کلمات ہیں جو بیسیوں محدثین کے استاذ، سینکڑوں احادیث کے حافظ، اسانید و متون کی علل کے ماہر، بیک وقت فقیہ و محدث، امام اہل السنہ، امام المحدثين، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بعض سوالات کے جواب میں ارشاد فرمائے۔
ان جوابات کو أستاذ/أبو العباس، رياض بن أحمد دياب الضميري وفقه الله نے “المسائل الفقهية التي توقف فيها الإمام أحمد” میں ذکر کیا ہے ۔
ان پر غور کیجیے اور سوشل میڈیا پر ہمارے رویے پر نظر ڈالیے، کس طرح ہر شخص مفتی بننے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ احمد رحمہ اللہ وہ ہیں کہ جن کی حدیث میں وسعت کے متعلق یہ تک کہا گیا کہ وہ حدیث، حدیث نہیں جسے احمد بن حنبل نہیں جانتے ۔ اور یہاں جس نے احادیث و آثار کا احاطہ کیا کرنا ہے محض قرآن مجید کا ترجمہ بھی نہیں آتا وہ بھی پوری حتمیت کے ساتھ”میری رائے یہ ہے” کہہ کر بات کرتا ہے ۔ حالانکہ طالب علم کو ہمیشہ اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے، ہر ہر مسئلے میں فتوی دینے کی خواہش، ہر چلتے پھرتے مسئلے پر رائے زنی، کبار علماء کی بجائے اپنے آپ کو مسائل کے حل کے لیے پیش کرنا، بے جھجک و بے دھڑک سوالات کے جوابات دیتے جانا، نہ صرف یہ کہ ادب کے منافی ہے بلکہ علم کی روشنی و چاشنی چھین لیتا ہے، علم میں بے برکتی کا سبب بنتا ہے اور یہ طرز عمل طریقِ طلب میں نامرادی وناکامی کا باعث بھی ہے، کتنے ہی ذہین وفطین جادۂ مستقیم سے ہٹ گئے، کتنے ہی علم ومطالعہ میں وسعت کے باوجود گمراہیوں کے گڑھے میں جا گرے۔
نسأل الله السلامة والعافية.

حافظ محمد طاہر