رمضان میں جن مسائل سے متعلق بہت سارے مسلمان پوچھتے ہیں، اور یقینا آپ کے ذہن میں بھی یہ سوالات پیدا ہوتے ہوں گے کہ:

فطرانہ یا صدقۃ الفطر یا زکاۃ الفطر کیا ہے؟

صدقۃ الفطر کا حکم کیا ہے؟

فطرانہ کس پر واجب ہے؟

فطرانہ کی مقدار کیا ہے؟

فطرانہ کس چیز سے ادا کرنا چاہیے؟

کیا فطرانہ بطور نقدی بھی ادا کیا جاسکتا ہے؟

فطرانہ کب ادا کرنا چاہیے؟

فطرانہ کس کو دیا جائے؟

بیرون ملک فطرانہ ادا کرنا درست ہے؟

ذیل میں ان سب سوالات کے جوابات پیشِ خدمت ہیں:

فطرانہ یا صدقۃ الفطر یا زکاۃ الفطر کیا ہے؟

صدقۃ الفطر، زکاۃ الفطر، اسی طرح فطرانہ اور فطرہ یہ سب ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں۔ اس سے مراد وہ صدقہ و خیرات ہے، جو عید سے پہلے پہلے ہر مسلمان نے ادا کرنا ہوتا ہے۔ جس کی کئی ایک حکمتیں ہیں، مثلا:

1۔طُهرةٌ للصَّائِمِ مِنَ اللَّغوِ والرَّفث.. یعنی روزہ دار کی کمی کوتاہی کا کفارہ بن جاتا ہے۔
2۔ طُعمةٌ للمساكينِ یعنی یہ مساکین کے لیے مدد اور تعاون کی ایک صورت ہوتی ہے۔
اور یہ دونوں حکمتیں باقاعدہ منصوص (قرآن وسنت میں بیان کردہ) ہیں. یہی وجہ ہے کہ بچے اگرچہ روزہ نہیں رکھتے، لیکن دیگر حکمتوں کے پیشِ نظر ان کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری ہے۔
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ نے مزید کچھ حکمتوں کی نشاندہی فرمائی ہے، مثلا:
3۔ یہ عمومی طور پر بدن کی زکاۃ ہے، یعنی کوئی روزہ دار ہے یا نہیں، چھوٹا ہے بڑا ہے، اس کو اللہ نے بدن اور اعضاء و جوارح عطا فرمائے ہیں، لہذا وہ اس شکریے کے طور پر صدقۃ الفطر ادا کرتے ہیں۔
4۔ یہ روزے مکمل ہونے کی خوشی میں اللہ تعالی کے شکریے کی بھی ایک صورت ہے۔ اسی لیے اس کو ’صدقۃ الفطر’ کہا گیا۔
(إرشاد أولى البصائر والألباب)) لابن سعدي (ص: 134،135)

صدقۃ الفطر کا حکم کیا ہے؟

صدقۃ الفطر فرض اور واجب ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

“فرَض رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم صدقةَ الفِطرِ…” [بخاري:1512، مسلم:984].

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ کو فرض قرار دیا’۔

بلکہ کئی ایک اہل علم نے اس کے فرض اور واجب ہونے پر اجماع و اتفاق نقل کیا ہے۔ [الإجماع لابن المنذر: 47، بداية المجتهد لابن رشد:1/279]

فطرانہ کس پر واجب ہے؟

فطرانہ ہر کسی پر واجب ہے، حدیث مبارک میں ہے:

“فرَض رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم زكاةَ الفِطر… على العبدِ والحُرِّ، والذَّكرِ والأنثى، والصَّغير والكبيرِ مِنَ المسلمينَ”. [بخاري:1503، مسلم:984]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ کو غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے، بڑے تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا’۔

لہذا ہر کسی پر فطرانہ ادا کرنا ضروری ہے، حتی کہ اگر کوئی فقیر بھی ہو، تو وہ دوسروں سے صدقہ لے کر، اپنی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا۔ بلکہ اہل ثروت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کی ضروریات پوری کرتے ہوئے یہ بھی خیال رکھیں کہ وہ اپنا صدقۃ الفطر ادا کرسکیں۔

نومولود جو رمضان کے آخری دن بھی پیدا ہوا ہو، اس کی طرف سے بھی فطرانہ ادا کیا جائے گا۔

فطرانہ کی مقدار کیا ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ الفطر کی مقدار ایک ’صاع‘ مقرر فرمائی ہے۔ [بخاري:1510]

صاع ایک عربی پیمانہ ہے، جو اجناس ماپنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ لہذا جو بھی جنس ہو، اسے صاع سے ماپ کر ادا کیا جائے۔ رہی بات وزن کی، تو وہ ہر جنس اور اس کے معیار، بلکہ وزن کرنے والے کے حساب سے مختلف ہوجاتا ہے، البتہ مختلف اہل علم کی طرف سے  گندم یا آٹے کے لیے جو وزن بیان گیا ہے، وہ تقریبا  21 سو گرام سے لیکر اڑھائی کلو تک ہے۔ (لجنۃ العلماء للإفتاء، فتوی نمبر:290)

فطرانہ کس چیز سے ادا کرنا چاہیے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ الفطر کی مقدار ایک ’صاع‘ مقرر فرمائی ہے، جو کہ اس وقت رائج بنیادی غذائی اجناس یعنی جو، منقی، پنیر ، اور کھجور وغیرہ سے ادا کیاجاتا تھا۔ [بخاري:1510]

لہذا جواجناس بطور بنیادی غذا استعمال ہوتی ہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں، گندم اور چاول وغیرہ، ان میں سے ایک ’صاع‘ بطور صدقہ الفطر دینا چاہیے۔

فطرانہ کے مستحقین کی مصلحت و ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اجناس کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ (لجنۃ العلماء للإفتاء، فتوی نمبر:290)

گندم کے لحاظ سے اس سال فطرانہ کی رقم (300 سے 400 کے درمیان ہے)

فطرانہ کب ادا کرنا چاہیے؟

اس میں دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ فطرانے کا وقت شروع کب ہوتا ہے، اور دوسرا کہ اس کا وقت ختم کب ہوتا ہے؟ جہاں آخری بات کا تعلق ہے تو اس سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

“أمر بها أن تُؤدَّى قبل خُروجِ النَّاسِ إلى الصَّلاةِ”. [بخاري:1503، مسلم:984]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ  عید نماز سے پہلے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا’۔

سيدنا عبد الله بن عباس رضي الله عنه بيان فرماتے ہیں:

“فرَض رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم زكاةَ الفِطرِ؛ طُهرةً للصَّائِمِ مِنَ اللَّغوِ والرَّفَثِ، وطُعمةً للمَساكينِ؛ مَن أدَّاها قبل الصَّلاةِ فهي زكاةٌ مَقبولةٌ، ومَن أدَّاها بعد الصَّلاةِ فهي صدقةٌ مِنَ الصَّدقاتِ”. [ ابوداود:1609، صحيح الجامع:3570]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زكاة الفطر کو مشروع قرار دیا ہے، تاکہ روزہ دار کی کمی کوتاہی کا ازالہ ہوجائے، اور مساکین کے لیے کھانے پینے کا بندوبست ہوجائے، جس شخص نے اسے عید نماز سے پہلے پہلے ادا کیا، تو اس کا فطرانہ مقبول ہے، اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا، تو وہ عام صدقہ ہوگا’۔

لہذا فطرانہ عید نماز سے پہلے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔

رہی بات یہ کہ اس کا وقت شروع کب ہوتا ہے، تو چونکہ اس ’صدقہ’ کو ’فطر’ یعنی روزہ کے افطار کے ساتھ جوڑا گیا ہے، اور یہ افطار یعنی رمضان کا اختتام شوال کا چاند طلوع ہونے پر ہوتا ہے، اس لیے یہی اس کا وقت ہے۔ یعنی رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے سے لیکر عید الفطر ادا کرنے سے پہلے پہلے اسے کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ [الشرح الممتع:6/166]

فقراء و مساکین کی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے، بعض سلف صالحین سے عید سے ایک دو دن پہلے بھی فطرانہ ادا کرنا ثابت ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر سلف سے وارد ہے کہ وہ ایک دو دن پہلے فطرانہ ادا کردیا کرتے تھے۔ [بخاري:1511]

بعض لوگ رمضان کے شروع سے ہی صدقۃ الفطر اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں، یہ محلِ نظر ہے، کیونکہ اس کا اصل مقصد فقراء کو عید کی خوشیوں میں سہولت فراہم کرنا ہے، اگر رمضان میں مدد اور تعاون مقصود ہے، تو اس کے لیے الگ سے صدقہ و خیرات کا اہتمام کیا جائے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا عملِ مبارک ہے۔

فطرانہ کس کو دیا جائے؟

“فرَض رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم زكاةَ الفِطرِ؛ طُهرةً للصَّائِمِ مِنَ اللَّغوِ والرَّفَثِ، وطُعمةً للمَساكينِ”. [ ابوداود:1609، صحيح الجامع:3570]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زكاة الفطر کو مشروع قرار دیا ہے، تاکہ روزہ دار کی کمی کوتاہی کا ازالہ ہوجائے، اور مساکین کے لیے کھانے پینے کا بندوبست ہوجائے’۔

اس حدیث میں صراحت کے ساتھ فطرانہ کا مصرف بھی بیان کردیا گیا ہے، اور وہ ہیں فقراء و مساکین، لہذا صدقۃ الفطر انہیں ہی دینا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مصارفِ زکاۃ میں اسے استعمال کرنا جائز نہیں۔

لہذا بہتر یہ ہے کہ فطرانہ براہ راست مساکین کو دیا جائے، لیکن اگر اس سلسلے میں مشکل ہو، تو پھر جو ادارے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، ان کے توسط سے بھی صدقۃ الفطر ادا کیا جاسکتا ہے۔

کسی دوسرے ملک یا شہر میں فطرانہ بھجوانے کا کیا حکم ہے؟

ضرورت كى بنا پر كسى دوسرے علاقے ميں فطرانہ منتقل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ہے. شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا اپنے اہل و عيال سے دور شخص گھر والوں كا فطرانہ ادا كرے، يہ علم ميں رہے كہ گھر والے اپنا فطرانہ خود ادا كرتے ہيں؟
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا جواب تھا:
فطرانہ کی ادائیگی ميں بھی ہر شخص دوسرے فرائض كى طرح خود مخاطب ہے، چنانچہ جب گھر والے خود اپنا فطرانہ ادا كرتے ہيں تو پھر گھر سے دور شخص كے ليے اپنے گھر والوں كى جانب سے فطرانہ ادا كرنا لازم نہيں، ليكن وہ صرف اپنا فطرانہ ضرور ادا كرے جہاں وہ رہ رہا ہے اگر وہاں مستحق مسلمان رہتے ہوں تو ٹھيک وگرنہ وہ اپنے ملک ميں گھر والوں كو وكيل بنا سكتا ہے. (ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين:18)
ابن عثیمین رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:
دور دراز كے علاقوں اور ملكوں ميں فقراء و مساكين كى موجودگى كے سبب فطرانہ وہاں منتقل كرنے كا حكم كيا ہے؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
كسى ضرورت كے تحت كسى دوسرے علاقے ميں فطرانہ منتقل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا جہاں شخص رہتا ہے وہاں فقراء نہ ہوں تو ٹھيک ہے. اور اگر بغير كسى ضرورت كے منتقل كيا جائے كہ اس علاقے ميں بھى فقراء موجود ہوں اور وہ فطرانہ قبول كريں تو پھر وہاں سے دوسرے علاقے ميں منتقل كرنا جائز نہيں۔ (ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين:18)
ذيل ميں سعودی فتوى كميٹى كا فتوى درج كيا جاتا ہے:
فطرانہ كسى دوسرے علاقے ميں وہاں كى شديد ضرورت كے پيش نظر منتقل كرنا جائز ہے، اور امام مسجد يا دوسرے ثقہ اور امين اشخاص كے ليے فطرانہ جمع كر كے فقراء ميں تقسيم كرنا جائز ہے؛ ليكن شرط يہ ہے كہ وہ نماز عيد سے قبل مستحقين تك پہنچ جائے. (ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ: 9/ 369 – 370)
گویا فطرانہ کسی دوسرے شہر، ملک اور علاقے میں ادا کیا جاسکتا ہے، لیکن اس میں درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1۔ جس علاقے میں آپ خود موجود ہیں، وہاں کے ضرورتمندوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
2۔ جس دوسرے علاقے یا ملک میں فطرانہ بھیجنا ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے پہلے وہ فطرانہ مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔
3۔ فطرانہ رمضان ختم ہونے کے بعد عید سے پہلے پہلے ادا کرنا مسنون ہے، لیکن اگر آپ کسی دوسرے ملک فطرانہ بھیجنا چاہتے ہیں، تو اپنی رقم اتنے دن پہلے ضرور بھیجیں کہ وہ عید سے پہلے پہلے مستحقین تک پہنچانا ممکن ہو۔

نوٹ: اس تحریر میں بیان کردہ مسائل کو خوبصورت گرافکس میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

نوٹ: آن لائن فطرانہ ادا کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔