سوال

حافظ صاحب آج کل یہ چیز عام ہوتی جا رہی ہے کہ ہمارے کئی اہل حدیث بھائی فوتگی کے کچھ روز بعد درس قرآن کا پروگرام رکھ لیتے ہیں، اور درسِ قرآن کے بعد فوت شدہ کی مغفرت کے لئے دعا کرائی جاتی ہے ۔ اس کی شرعی حیثیت واضح فرمادیں۔ (دعاؤں کا طالب:سید ابوبکر مشہدی)

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کچھ لوگ میت کے ایصالِ ثواب کے نام سے ’قُل، ساتواں، چالیسواں‘ وغیرہ کرواتے ہیں، جو کہ بدعت ہے۔ کیونکہ قرآن وسنت میں، یا عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں ایسی کسی سرگرمی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کئی ایک صحابہ کرام اور صحابیات دنیا سے رخصت ہوئیں، آپ نے ان کے لیے کفن ، دفن، نمازِ جنازہ اور دعا کا اہتمام کیا، جس کی تفصیلات کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ وہاں کہیں بھی ایسی کوئی محفل و مجلس کا ذکر نہیں، جو آج ہمارے ہاں ایصالِ ثواب کے نام پر منعقد کی جاتی ہیں۔
بلکہ اس قسم کی رسوم و رواج ہندو مذہب سے دیکھا دیکھی مسلمانوں میں سرایت کر گئی ہیں، جیسا کہ ہندو سے مسلمان ہونے والے بزرگ مولانا عبید اللہ مالیرکوٹلوی نے اپنی کتاب ( تحفۃ الہند، ص:188 ) میں لکھا ہے۔
کچھ عرصہ سے اہلِ حدیث حضرات میں بھی یہ سلسلہ رائج ہورہا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد پروگرام رکھا جاتا ہے، جس میں درسِ قرآن اور کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے، اور میت کے لیے اجتماعی دعائے مغفرت کروائی جاتی ہے۔ یہ بھی سابقہ بدعی اور غیر اسلامی رسوم و رواج ہی کا ایک تسلسل ہے، بس نام اور دن تبدیل کردیے گئے ہیں۔ لہذا ان سب امور سے گریز کرنا ضروری ہے۔
درسِ قرآن، دعائے مغفرت، کھانا کھلانا، صدقہ و خیرات، یہ سب نیک اور اچھے اعمال ہیں، لیکن انہیں یوں میت اور وفات کےساتھ منسلک رسم و رواج کی شکل دینا قطعا درست نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ