ہم کانچ کے کھلونوں ہی کی مانند تو ہیں، بس ذرا سی ٹھیس لگی اور چکنا چُور ہو گئے، ہماری یہ زیست جس پر ہم رِیجھ بیٹھے ہیں، دراصل آبگینوں سے زیادہ توانا اور مستحکم تو نہیں ہے، یہ زندگانی تو فقط ایک جھٹکے میں کرچیوں میں بٹ جاتی ہے۔کسی جِھیل کنارے بیٹھے پنچھیوں کی ڈار سے جدا ہو جانے والے پنچھی کی طرح آنِ واحد میں زندگی کے نشاط انگیز اور طرب آمیز لمحات ہم سے چھین لیے جاتے ہیں۔ہماری زندگی کی ڈور سانسوں ہی سے تو بندھی ہوتی ہے اور مجھے کہنے دیجیے! کہ زیست کی مانگ میں اُس وقت تک کہکشانیں سجتی سنورتی رہتی ہیں جب تک سانسوں کی آمد و رفت میں آسودگی کے ساتھ تسلسل قائم رہے۔سانسیں ہی زخمی اور خراش آلود ہو کر دُکھنے لگیں تو سارا کیف و سرور غارت ہو کر رہ جاتا ہے۔راجیش ریڈی کا شعر ہے۔
ہر ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی ہے
یہ زندگی تو کوئی انتقام ہو گئی ہے
بات یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ سانسوں کے یہ عارضے بقیہ حیات کے لمحات کو بھی صعوبتوں میں ڈھال دیتے ہیں اور آپ جانیں کہ سانسوں کی تنگی ساری زیست میں تلخی اور ترشی گھول کر رکھ دیتی ہے، پھر ساری زندگی عذاب ہی تو لگتی ہے، نظیر صدیقی نے کہا تھا۔
جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں
خدا ملائے اُنھیں زندگی کے ماروں سے
ہماری ذرا سے بے پروائی اور بے احتیاطی ہمیں زندگی بھر کے روگ دے جاتی ہے۔انسان کی سانسیں تنگ ہونے لگیں تو پھر دھڑکنوں کے نشیب و فراز بھی درست اور منظم نہیں رہتے۔
لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے، اس کی فضا میں زہریلے دھوئیں کی آمیزش بڑھتی جا رہی ہے اور ان سرد ہوتے ایام میں سموگ زندگی کا روگ بن کر آ دھمکتی ہے۔سموگ دراصل وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں رہتی ہے اور سردیوں میں شدت اختیار کر جاتی ہے، اس سے بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، دھوئیں اور دھند کے مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائیٹروجن آکسائیڈ اور میتھین جیسے زہریلے کیمیکل شامل ہو جاتے ہیں، جن سے نزلہ، کھانسی، آنکھوں میں جلن، گلا خراب، پھیپھڑوں کا کینسر اور سانس کی تکالیف سرِ فہرست ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہورکا پہلا اور نئی دہلی کا دوسرا نمبرہے، ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق 201 سے 300 تک کی شرح آلودگی کے اعتبار سے انتہائی مضر صحت ہے، لاہور میں آلودگی کی شرح 391 پرٹیکیولیٹ میٹرز تک پہنچ گئی ہے۔ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق دنیا کا دوسرا بڑا آلودہ شہر نئی دہلی ہے جہاں شرح آلودگی 225 پرٹیکیولیٹ میٹرز تک پہنچ چکی ہے۔جس کی وجہ دیوالی کا تہوار ہے، جس میں بے تحاشا پٹاخے چلائے جاتے ہیں۔
ہم فکری طور پر اپاہج معاشرے کے باسی ہیں، جہاں دُور اندیشی کا دُور دُور تک گزر نہیں ہوتا، ہماری انسانی آبادیوں کے قرب و جوار میں درجنوں بَھٹّا خشت موجود ہوتے ہیں مگر ماحول کو آلودگی سے بچانے والے اداروں کے کانوں پر کبھی جُوں تک نہیں رینگتی، ہماری گاڑیوں کے سائلنسر منہ پھاڑے پھاڑ کر بھی سیاہ دھواں پھینکتے رہیں تب بھی ہمارے ساکت و جامد احساسات میں رتّی برابر ارتعاش تک پیدا نہیں ہوتی۔ہماری پولیس ہیلمٹ نہ پہننے پر تو چالان کرتی ہے مگر دھواں اگلنے والی گاڑیوں کو شاذ ہی جرمانہ کیا جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سال بھر فضائی آلودگی کو قومی مسئلہ سمجھ کر اِس کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدام کرتے رہتے مگر ہمیں سرد ہوتے موسموں میں یہ خیال تب آتا ہے جب سموگ ہماری سانسوں میں ترشی اور تنگی گھولنے لگتی ہے۔ہم شعور اور آگہی سے بہت پرے بھٹکنے کے عادی ہیں، ہم نے آج تک سموگ کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ کاوش نہیں کی، ہم تو ابھی تک اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید سموگ اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں ہماری سانسوں کو تنگ کرنے آ دھمکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سموگ سارا سال رہنے والے ٹریفک کے دھوئیں اور دیگر آلودگی کے باعث جنم لیتی ہے، سردیوں کے اِن ایّام میں فقط اتنا ہوتا کہ یہ دھواں، دُھند میں شامل ہو جاتا ہے جس سے انتہائی خطرناک سموگ جنم لیتی ہے۔
بدلتے موسموں کی خُو ہے کہ یہ انسانی صحت کو ضرور متاثر کرتے ہیں۔دھواں کسی مضافات سے اٹھے یا دل کے نہاں خانوں سے، یہ انسان کا سانس لینا ضرور محال کر دیتا ہے، شہروں اور بستیوں سے اٹھنے والا دھواں اور گَرد و غبار انسان کی سانسوں کے ساتھ چہروں کو بھی بگاڑ رہا ہے، یہ نسلِ انسانی کے لیے خطرے کی علامت بنتا جا رہا ہے مگر ہم اسی وقت سٹپٹا کر جُھرجُھری لیتے ہیں جب مصیبتیں ہمارے نتھنوں اور حلقوم تک کو دبوچ لیتی ہیں، آلودگی سے اٹے ماحول کی طرف دھیان نہ دیا گیا تو یہ کرّہ ارض آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت ضرور بن کر رہ جائے گا، ندیم ماہر کا شعر ہے۔
گَرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بگڑ گیا
ملبوس تھا مَیں جس میں، لبادہ بکھر گیا