غزہ کب تک لہو لہان رہے گا؟

خبر نہیں کہ یہ سارے ظرف کسی یخ بستہ برف کی مانند اتنے سرد کیوں پڑ گئے؟ معلوم نہیں کہ منجمد احساسات میں مہرو وفا کی تپش اور حدّت کب طوفان اٹھا پائے گی کہ اب تو سِینے بھی سُلگ اٹھے ہیں، اب تو دل بھی تڑپ تڑپ کر ہلکان ہو چکے ہیں، اب تو جسم و جاں پر درد کا پڑاؤ بھی بڑا ہی طویل ہو چکا ہے، کتنی ہی سرخ لہو میں ڈوبی آزردہ شامیں بیت چَلِیں اور کتنی ہی آہوں میں لپٹی صبحوں نے دَم توڑ دیا مگر غزہ کی چیخیں عرب و عجم کے کسی حکمران کی سماعتوں میں اَدنیٰ سی خراش تک پیدا کرنے سے قاصر پے۔ فلسطین ہی نہیں دنیا بھر میں جہاں بھی دیکھو، جس جگہ کا بھی مشاہدہ کرو، اُمّتِ مسلمہ اپنے سپنے لٹائے بیٹھی ہے۔ اپنی آنکھوں کے کٹورے میں اشک لیے یرغمال بنی نڈھال ملّتِ اسلامیہ کو تکا بوٹی کیا جا رہا ہے مگر 57 اسلامی ممالک کے دلوں میں حمیت نام کا کوئی جذبہ جھرجھری نہیں لے رہا۔ اب تو ظلم اور کرب نے اپنی حالت اور کیفیت ہی بدل ڈالی ہے۔ عالمِ کفر کا مسلّط کردہ ظلم و ستم اپنی جگہ اذیّتوں سے آلودہ سہی مگر اب تو دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے سربراہوں اور سات برّاعظموں میں پھیلے مسلمان سیاست دانوں کی بے حسی، یہود و نصاریٰ کے ظلم سے بڑھ کر ظلم کا روپ دھار چکی ہے۔ درد و الم کی یہ بدلی ہوئی حالت اور کیفیت، مظلومیت کے حصار میں گرفتار مسلمانوں کو کھائے جا رہی ہے کہ ظلم و سربریت پر اس قدر خاموش مزاجی تاریخ کے قرب و جوار میں بھی کہیں دِکھائی نہیں دیتی۔ عہدِ جدید میں مسلم اُمّہ کا یہی سب سے بڑا روگ ہے جس پر جتنا بھی سوگ کیا جائے، کم ہے۔
صہیونیت، مسلمانوں کا خون چوس رہی ہے، اسرائیل مسلسل مقبوضہ بیت المقدس کو کھنڈر بنائے جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کے لہو کی اس قدر ارزانی پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ صہیونی
انٹیلی جنس ادارہ ” شاباک “ غزہ کی پٹّی پر اپنی ہر طرح کی شیطانیت سر انجام دینے میں مصروف ہے۔مصر سے ملحقہ سرحد پر اہلِ فلسطین کی فلک شگاف آہیں اور سسکیاں خود مصر کے حکمران سننا گوارا نہیں کر رہے۔ اب تو اذان دینے پر پابندی کی باتیں پرانی ہو چکیں۔ فلسطینی مسلمانوں کی مسجد میں داخل ہونے کی کوششیں ماضی کا حصہ بنا دی گئیں۔اب تو اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر 2700 ڈالر جرمانے کا قانون بھی قصہ ء پارینہ بن چکا۔ اب فقط فلسطینی مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑانا ہی صہیونیت کا مقصد بن چکا ہے۔ مشرقی یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج ہزاروں مسلمانوں کی بوٹیاں بارود میں بھسم کر چکی۔ ہر آن اور ہر لمحہ موت کا دھڑکا فلسطینی مسلمانوں کے اذیت بن چکا ہے، رات کو سکون ہے نہ دن کے کسی پَل میں راحت و سکون ۔نظیر صدیقی نے ایسے دکھ کا منظر اِس طرح پیش کیا ہے۔
حالات اب تو اتنے دشوار ہو گئے ہیں
ہم نیم شب میں اکثر بیدار ہو گئے ہیں
جعلی اور دو نمبر اسرائیلی ریاست مسلمانوں کے خون کو بے دریغ بہائے جا رہی ہے اور مسلم حکمران کوئی ٹھوس اور پایدار پالیسی بنانے میں بھی دل چسپی نہیں ہے رہے۔ مسجدِ اقصیٰ آج بے بسی کے آنسو بہا رہی ہے، بیت المقدس آج نوحہ کناں ہے مگر دنیا کسی گوشے اور کونے سے ان کی اشک شوئی کرنے کی آس اور امید نظر نہیں آ رہی قریباً 70 سالوں سے صہیونیت، فلسطینی مسلمانوں کی بوٹیاں نوچ رہی ہے۔ روح فرسا عذابوں پر مشتمل تاریکیوں کے غول اور اندھیروں کے ٹولے اہلِ فلسطین کے بدنوں پر جگالی کر رہے ہیں۔ ان مسلمانوں کے احساسات ریزوں میں بٹ چکے، ان کے سارے خواب منہدم ہو چکے مگر اس کے باوجود ان کے جذبات میں کم ہمّتی کی آمیزش تک شامل نہ ہوئی۔ اُن کے عزم و ہمم میں تھکاوٹ کی ملاوٹ تک نہیں دیکھی گئی۔ گولے برساتے ٹینکوں کے سامنے پتّھر اور غلیل لے کر بھی اُن کی جدوجہد میں کوئی کاہلی رخنے نہ ڈال پائی، اگرچہ دنیا بھر کی بے مروّتی اور بے پروائی کا رخ اہلِ فلسطین اور اہلِ کشمیر کی طرف ہے مگر اپنوں کی ہمہ قسم کی بیگانگی کے باوجود حرّیّت کے دیوانوں کی دیوانگی میں غفلت کی آہٹ تک کسی نے نہ سُنی۔ مگر اب 57 اسلامی ممالک کی مسلسل بے حسی سے لگتا ہے کہ بیت المقدس ہمارے ہاتھ سے بالکل نکل چکا ہے۔ افسوس آج ہم ایسے عہد میں ژندہ ہیں کہ جس عہد میں بیت المقدس مکمل طور پر یہودیت کے نرغے میں جا چکا ہے۔
اقتدار کے اکھاڑے میں اپنی اپنی پہلوانی کے جوہر دِکھانے والے، اپنی حکومت بچانے اور دوسروں سے اقتدار چھین لینے کے لیے پورے مُلک میں ہنگامہ برپا کر دینے والے، بدعنوانی پر بدعنوان لوگوں کا واویلا اور دھماچوکڑی، بال کی کھال اتارنے کے ماہر اور مشّاق ان لوگوں کی نظرِ التفات کے کسی ایک گوشے اور کونے میں اہلِ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کا کرب کیوں جاگزیں نہیں ہوتا؟ اسرائیل کی بدمعاشی سے ساری دنیا آگاہ ہے اور ایک دوسرے پر کرپشن کی غلاظت پھینکنے والوں کی انتہائی حسّاس معاملوں میں ان کے شعور اور ادراک پر جمی کائی بھی ساری دنیا ملاحظہ کر رہی ہے۔ اے کاش! جتنا ہنگامہ یہ لوگ اقتدار پر اپنا تسلّط قائم رکھنے یا کرسی کو چھین لینے کے لیے اٹھاتے ہیں، اتنا ہی فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر کیا جاتا۔ مقتدر لوگوں سے اقتدار چھین لینے کے لیے جس طرح سارے سیاست دان اکھٹے ہو جاتے ہیں، بعینہٖ اسرائیل کے ظلم اور بھارت کے استبداد کا بھانڈا اچھی طرح پھوڑنے کے لیے بھی یہ سارے سیاست دان ایک ہو جاتے تو درد میں ڈھلا منظر آسودگیوں میں بدل سکتا تھا۔کیا کشمیر اور فلسطین سے اِن کی مَحبّتوں کے دعوے روکھے اور پھیکے پڑ چکے ہیں؟ ہماری مسلسل بے رخی اور بے اعتنائی سے کہیں فلسطین اور کشمیر کے لوگ ہم سے مایوس ہی نہ ہو جائیں۔ حبیب جالب نے فلسطین پر ایک بہت دل گداز نظم لکھی ہے، جس کے چند مصرعے ہیں۔
قاتلو، رہزنو! یہ زمیں چھوڑ دو
ہم کو لڑنا ہے جب تک کہ دَم میں ہے دَم
اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم
اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا عَلَم

(انگارے… حیات عبداللہ)

یہ بھی پڑھیں: غزہ کی آخری سانسیں