بعض شخصیات کی غلطیوں پر تنبیہ اور ان کے ادب و احترام کے حوالے سے معتدل موقف
کسی شخصیت کا ادب و احترام اور ان کی خدمات کا اعتراف ایک الگ چیز ہے، جبکہ اس کی فکر اور تحریرات و تصنیفات میں پائے جانے والے انحراف کی تائید ایک الگ مسئلہ ہے۔
ہمارے ہاں جب اہل علم نے اتباع سنت کی اہمیت و ضرورت اور تعصب و جمود اور فقہی مکاتب فکر کے ائمہ کی اندھی تقلید کے مفاسد اور نقصانات کو بیان کیا، تو ساتھ اہل علم، فقہاء، محدثین اور ائمہ کرام کے ادب و احترام کی ترغیب بھی دلائی۔
لیکن بہرصورت اس حوالے سے افراط و تفریط کی صورتیں بھی سامنے آئیں، لہذا کچھ لوگوں نے شخصیات کے ادب و احترام کی آڑ میں ان کے غلط موقف کی ترویج کی جبکہ دوسروں نے موقف کے رد کے ساتھ ساتھ شخصیات کی توہین و تنقیص کو بھی منہج کا تقاضا سمجھا، حتی کہ امام حنیفہ، محمد بن حسین شیبانی، قاضی ابو یوسف، امام طحاوی، علامہ عینی وغیرہ جیسے اکابرین واعلام ( رحمہم اللہ اجمعین) پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا، جسے سنجیدہ طبع اہل علم نے کبھی پسند نہیں کیا تھا اور ہمیشہ اس سے روکتے رہے۔
علم و فضل اور زمانے کے فرق کے ساتھ یہی معاملہ اب مولانا مودوی وغیرہ بزرگوں کا بھی ہے، جماعت اسلامی کے جیالے تو ان کی کسی غلطی کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں، اور جو علمائے کرام ان کی غلطیاں بیان کرتے ہیں، انہیں الٹے سیدھے القابات سے نوازنا شروع کر دیتے ہیں، جبکہ دوسری طرف غیر جماعت اسلامی والے انہیں مسلمان سمجھنے کو تیار نہیں۔
جبکہ عموما اکابرین اور سنجیدہ اہل علم کا طرز یہی رہا ہے کہ انہوں نے مولانا مودودی اور ان جیسے افراد کی فکر میں موجودہ کجیوں کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسا کہ تفہیم القرآن وغیرہ میں اسماء و صفات وغیرہ کی تاویل، خلافت و ملوکیت میں صحابہ کرام کی شان میں تنقیص، اسی طرح حجیت سنت و حدیث اور سیاست و امامت کے حوالے سے ان کی فکر کی خرابیاں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں، لیکن کبھی بھی ایک مودودی سو یہودی جیسا بیہودہ نعرہ نہیں لگایا۔ یا مولانا کی ذات پر کیچڑ اچھالنا یا انہیں بالکل زیرو کرکے پیش کرنا، یا انہیں ’رحمہ اللہ’ کہنے سے ہی کترانا، ایسی کوئی صورت اکابرین اور سنجیدہ اہل علم کے ہاں نظر نہیں آتی۔
ہمارے نزدیک معتدل اور معتبر طریقہ کار یہی ہے۔ اور یہ ہماری اپنی ذہنی اختراع نہیں، بلکہ پاک و ہند اور عالم عرب کے عموما اہل علم کا یہی تعامل ہے۔
ایک صاحب شیخ البانی کے پاس آئے اور کہنے لگے، اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے جو مودودی کی فلاں فلاں غلطیوں کی تعریف کرتا ہے؟
شیخ نے پوچھا: غلطیوں کی تعریف کرتا ہے یا مودودی کی تعریف کرتا ہے؟ سائل کہنے لگا: نہیں مودودی کی تعریف کرتا ہے.. شیخ کا جواب سنیں:
«فإذا مدح صاحب الكلام قد أمدحه أنا فهل معنى ذلك أنني أُصَوِّب كل ما قال.». [جامع تراث العلامة الألباني في المنهج والأحداث الكبرى 6/ 317]
یعنی غلطی کی تائید الگ بات ہے، جبکہ شخصیت کی تعریف الگ مسئلہ ہے، کیونکہ مودودی کی تعریف تو میں بھي کرتا ہوں، تو کیا اس کا مطلب میں اس کی غلطیوں کی تائید کرتا ہوں؟
پھر شیخ رحمہ اللہ نے اس سائل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
«شوف يا أخي نحن ننصحك والشباب الآخرين الذين يقفون في خط منحرف فيما يبدو لنا والله اعلم أن ما تضيعوا أوقاتكم في نقد بعضكم بعضا وتقولوا كذا، وفلان قال كذا لأنه أولاً هذا ليس من العلم في شيء، وثانياً: هذا الأسلوب يوغر الصدور ويحقق الأحقاد والبغضاء في القلوب، إنما عليكم بالعلم، فالعلم هو الذي سيكشف هل هذا الكلام في مدح زيد من الناس لأن له أخطاء كثيرة هو مثلا يحق لنا أن نسميه صاحب بدعة وبالتالي هل هو مبتدع، ما لنا ولهذه التعمقات، أنا أنصح بأن لا تتعمقوا هذا التعمق لأن الحقيقة نحن نشكو الآن هذه الفرقة التي طرأت على المنتسبين على دعوة الكتاب والسنة أو نقول نحن على الدعوة السلفية هذه الفرقة والله أعلم السبب الأكبر فيها هو حظ النفس الأمارة بالسوء وليس هو الخلاف في بعض الآراء الفكرية هذه نصيحتي.».
شیخ کے کلام کا خلاصہ اور مفہوم یہ ہے کہ اس طرح بال کی کھال اتار کر اور صغرے کبرے ملا کر لوگوں کو بدعتی بنانے اور منہج بدر کرنے کی کوشش نہ کریں، اس سے نفرتیں اور حسد و بغض ہی جنم لیتا ہے، اسی منفی رویے کی وجہ سے اہل حق گروہوں میں بٹ رہے ہیں، اور اس قسم کے اختلافات فکر و نظر اور دلائل و براہین سے زیادہ حظوظ نفس کی بنیاد پر پیدا ہو رہے ہیں۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب:
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ جب مولانا کی ذات کی تعریف یا ان کے ادب و احترام کی بات کرتے ہیں، یا ان کے حوالے دیتے ہیں تو عامی لوگ ان کی گمراہیوں سے متاثر ہوتے ہیں؟
ہماری عرض یہ ہے کہ یہ اعتراض ہمارے اوپر ہے یا ان اکابرین کے اوپر ہے، جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم یہ کر رہے ہیں؟
کیا آپ کو نہیں پتہ کہ ہماری بے شمار اردو کتب تفاسیر وغیرہ میں جابجا مولانا مودودی کے حوالے موجود ہیں؟
عالم عرب میں عقیدے کی کتابوں تک میں مولانا کا ذکر خیر اور ان کی کتابوں کے حوالے موجود ہیں۔
مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ، عصر حاضر میں ایک معتبر نام اور مسلم الثبوت شخصیت ہیں، جاکر ان کی کتابیں دیکھیں کہ ان میں کتنی بار مودودی رحمہ اللہ لکھا ہوا ہے اور ان کی تفسیر وغیرہ کے حوالے موجود ہیں۔
حتی کہ مولانا مودودی کا صحابہ کے باب میں انحراف واضح ہے، لیکن حضرت اثری حفظہ اللہ نے مقام صحابہ کتاب میں بھی ان کی تفسیر سے حوالہ نقل کیا ہوا ہے۔
اور یہ کیسی عجیب بات ہے کہ علماء مولانا کی غلطی بھی بیان کرتے اور ان کی تعریف بھی کرتے ہیں، لیکن لوگ صرف تعریف سن کر گمراہ ہوتے ہیں، لیکن غلطیوں پر تنبیہ انہیں نظر نہیں آتی؟!
دوسرا اعتراض اور اس کا جواب:
’’علماء اہل حدیث نے کس موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام نہیں کیا اور کس موضوع پر کتب تصنیف نہیں کیں؟ جس کی بنا پر مودودی یا دوسرے منحرفین کی کتب کا کہنا پڑتا۔ تفسیر قرآن، شروحات حدیث، عقائد ودیگر موضوعات پر کیا علماء اہل حدیث کی کتب کم ہیں؟
کیا ان اعتدال کا سبق دینے والوں نے کبھی شیخ محمد بن صالح العثیمین، شیخ ابن باز، مولانا محمد اسماعیل سلفی, علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید، علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی، مولانا عبدالسلام بھٹوی، مولانا شیخ ارشاد الحق اثری کی کتابیں پڑھنے کی توجہ دلائی ہے؟’’
یہ ہمارے ایک محترم امام مسجد اور خطیب صاحب کی پوسٹ ہے، جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اعتدال کا درس دینے والے اہل حق علماء سے استفادہ کی دعوت نہیں دیتے، بلکہ منحرفین کی طرف رہنمائی کرتے ہیں!!
مجھے نہیں علم ان کے ذہن میں کون شخص ہے، جو کبار اہل حدیث اور سلفی علماء کو چھوڑ کر مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار، سید قطب یا قرضاوی وغیرہ کی کتابوں کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو غلط ہے۔
لیکن اگر صرف کسی شخصیت کی تعریف یا ان کی کسی کتاب کی تعریف یا ان کی کسی خدمت کے اعتراف کا یہ مطلب نکال لیا گیا ہے تو یہ بالکل غلط نتیجہ ہے۔ اور یہ اعتراض ان کبار پر بھی وارد ہوتا ہے، جن کا معترض نے ذکر کیا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ ان میں بیشتر اہل علم خود مولانا مودودی جیسی شخصیات کی خدمات کا اعتراف اور ان کی کتب کے حوالے نقل کرتے آئے ہیں۔
اس قسم کے اعتراض بتاتے ہیں کہ ہمارے بعض دوست پڑھنے کے تکلف میں نہیں پڑتے۔ کیونکہ یہ محض ایک جذباتی نعرہ ہے کہ جب سب کچھ ہمارے بزرگوں نے لکھ دیا ہے تو پھر دوسروں کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو بھائی آپ بزرگوں کو پڑھ تو لیں!! اور پھر ان سے پوچھ لیں کہ ہم تو لوگوں کو منحرف لوگوں سے ہٹا کر آپ کی طرف لیکر آ رہے ہیں، آپ کو کیا ضرورت ہے کہ آپ پھر انہیں منحرفین کے حوالے نقل کر رہے ہیں؟!
تیسرا اعتراض اور اس کا جواب:
ہمارے ہاں عموما کہا جاتا ہے کہ فلاں کے معتدل اور نرم رویے کے سبب لوگ گمراہ ہو رہے ہیں… وغیرہ۔
اگر یہ دوست واقعتا چیزوں کو اسی انداز میں دیکھتے ہیں، تو بتائیں کہ دوسری طرف جاہلوں کو شیوخ الحدیث کی داڑھیاں نوچنے کی ہمت و جرات کس نے دی ہے؟
ایک جاہل اور عام آدمی صرف اس وجہ سے کسی شیخ الحدیث کو اہل حدیث، اہل حق یا مسلمان تک ماننے سے انکار کر دیتا ہے کیونکہ وہ بزرگ عالم دین یا شیخ الحدیث وہ بات نہیں کرتے، جو منہج اس جاہل کو سنایا اور سمجھایا گیا ہے؟!
کسی منحرف کے بارے میں نرم رویے رکھنے سے اگر گمراہی پھیلتی ہے، تو کیا دوسری طرف سے سخت رویے رکھنے سے لادینیت اور طوفانِ بدتمیزی عام نہیں ہو رہا؟
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت ہمیں اعتدال و وسطیت کا درس دیتی ہے، جس طرح تساہل اور مداہنت سے روکا گیا ہے، اسی طرح غلو، تشدد اور تعنت بھی شریعت میں ممنوع ہے۔
آخری اور اہم بات یہ ہے ( اور جس پر ہم سب کا اتفاق ہے) کہ دین ہم نے اہل علم اور مشایخ سے سیکھنا ہے، اس میں ہم نے عوام اور جاہلوں کو نہیں دیکھنا کہ اگر ہم مولانا مودودی کی غلطی بیان کریں گے تو جماعتیے ہمارے ساتھ بدتمیزی کریں گے، یا اگر ہم مولانا کا ادب و احترام کریں گے تو غیر جماعتیے ہم پر پل پڑيں گے!
شیخ طریفی حفظہ اللہ نے ایک بڑا اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ بعض قائدین ’متبوع’ کی صورت میں ’تابع’ ہوتے ہیں کہ جو عوام کا رجحان بنا، اسی طرف چل دیے…!!
علماء الحمد للہ متبوع ہیں اور عوام تابع ہیں، اور یہ کسی طور درست نہیں کہ علماء تابع اور عوام متبوع کے درجے پر آ جائیں۔ اور بالخصوص ایسے لوگ تو کبھی متبوع نہیں بن سکتے جو علمی امانت و دیانت تو دور کی بات بنیادی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر، فیک یا زنانہ آئی ڈیز کے زور پر اپنی فکر رائج کرنے کے چکر میں ہیں۔
#خیال_خاطر