حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کر دیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلمان! یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کر دو، سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔(صحیح مسلم)
یہودیوں کے اسکالرز اور محقق قرآن و احادیث کا مطالعہ کر کے اپنی ترقی کی راہیں کھولتے اور مسلمانوں کی کمزوریوں پر گرفت کرتے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے حدیث مبارکہ پڑھنے کے بعد غرقد کو اپنا پاسبان شجر قرار دے رکھا ہے اور اسکی کاشت کو اپنے لئے نعمت سمجھتے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والا ہر لفظ سچا ہے اور ہر قیمت پر پورا ہونے والا ہے۔ چنانچہ یہودی اس حدیث کی روشنی میں غرقد کی کاشت میں لگے ہوئے ہیں تاکہ مسلمانوں سے جنگ کے دوران جب اس زمین کی ہر چیز پکار پکار کر کہے گی کہ اے مسلمانوں میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ اسے قتل کر دو تو اس وقت یہی درخت گونگا بن کر اس چھپے ہوئے یہودی کی پناہ گاہ بن جائے گا۔
یہودی جانتے ہیں ایسا ہی ہوگا۔ یہ معرکہ ہوکر رہے گا۔ اصل میں دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ہی دین اور کتاب کی تعلیمات سے ناواقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب نے ان تعلیمات کی حقانیت کو آزمانے کے بعد انہی کا مطالعہ کر کے انھیں کمزور ایمان مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
یہودیوں کا دوست جنات کا مسکن درخت غرقد کا درخت ہے (جسے یہودی درخت بھی کہتے ہیں) اس کا تنا نہیں ہوتا ایک سے پانچ میٹر تک لمبا ہوتا ہے۔ جب آخری عالمی جنگ ہوگی اور مسلمان یہودیوں کو چن چن کر ماریں گے۔
بعض لوگ کہتے ہیں یہ جنات کی رہائش ہے یعنی یہودی جنات کی اسی وجہ سے یہ آواز نہیں دے گا۔ 1981 میں اقوامِ متحدہ نے اردن کو دس لاکھ غرقد کے پودے دیئے تھے۔ ان پودوں کو توڑنے یا اکھیڑنے پر قید کی سزا مقرر کی گئی تھی. سال بھر پہلے یہی درخت سعودی حکومت نے یہودیوں کے کہنے پر مدینہ منورہ کے باغات میں بھی لگائے تھے۔ یہودی اس درخت کو اپنے مورچے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ان کی منصوبہ بندی کے مطابق فلسطین, اسرائیل, سعودیہ میں گھمسان کا رن پڑے گا۔ لہذا وہاں یہ پودے بو دیئے گئے ہیں تاکہ وقت آنے پر ان کو مورچہ بنا لیا جائے۔