غزہ کے ان جری بہادر اور مجاہد ڈاکٹرز کو سلام ہے جنہوں نے بارود اور آہن کی بارش میں شب و روز بنا آرام کیے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ غزہ کے ڈاکٹروں نے ایک ایسی بہادری کی داستان رقم کی ہے۔ جس کی نظیر نہیں ملتی۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے گئے ویڈیو کلپس میں نوجوان ڈاکٹر حمام اللوح کی کہانی سن کر  ایمان اور جذبہ تازہ ہوجاتا ہے، جو الشفاء اور الاقصیٰ شہداء ہسپتالوں میں گردوں کے واحد ماہر تھے۔ اسرائیلی افواج نے غزہ میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا۔ وہ اس فضائی حملے میں جام شہادت نوش کر گئے۔ دو دن پہلے فجر کے وقت کارکنوں نے ان کی شہادت سے قبل ڈاکٹر صاحب کا آخری پیغام  شیئر کیا جس میں معروف امریکی صحافی ایمی گڈمین نے ان سے پوچھا کہ وہ ہسپتال سے جنوب میں محفوظ مقام پر کیوں نہیں چلے جاتے، تو ان کا جواب تھا: ’اگر میں چلا گیا تو پیچھے کون ہے؟ مریضوں کا علاج کون کرےگا؟

ڈاکٹر اللوح شہید رحمہ اللہ  کا مزید کہنا تھا  “کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی اور ذات کے بارے میں سوچنے اور مریضوں کو ترک کرنے کے لیے 14 سال سے زائد عرصے تک طب کی تعلیم حاصل کی ہے؟”

آہ۔۔۔ موت کا وقت مقرر ہے اور کوئی موت قبل از وقت نہیں ہوتی مگر دیکھنا یہ ہے کہ کون کیسے گیا اور کس حالت میں گیا۔ یقینا غزہ کے اس عظیم ڈاکٹر نے اپنی قربانیوں سے ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو کہ جنگ کے دنوں میں خدمات پیش کرنے والوں کے لیے تا دیر یاد رکھی جائیں گی۔

گزشتہ اتوار کو مغربی غزہ کی پٹی میں المہدی ہسپتال برائے زچگی پر اسرائیلی قابض فوج کی گولہ باری سے دو ڈاکٹر بھائی شہید ہوگئے۔ یہ دو ڈاکٹرز باسل اور رعد مہدی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوئے۔

اپنی شہادت سے تین دن قبل ڈاکٹر باسل  نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک پیغام دیا تھا کہ “کوئی بھی اپنے وقت  سے پہلے نہیں مرے گا، لیکن کچھ لوگ عزت و غیرت کی کمی، انسانیت کے فقدان اور اصولوں کو پامال کرتے ہوئے مریں گے۔ اپنے عرب اور دنیا کے مسلم بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر باسل نے کہا کہ تم ناکام ہو چکے ہو، اور تمہاری عربی شناخت تمہیں ناکام کر چکی ہے۔ اللہ آپ کو خوش آمدید کہے یا آپ کو معاف نہ کرے۔” یہ اس کی مرضی ہے مگر فلسطینی تمہاری مفاد پرستی اور خود غرضی پر تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ اگر ہم دشمن کے گولوں اور میزائلوں سے شہید ہوجائیں گے تو ہم کامیاب و کامران ٹھہریں گے مگر تم چند دنوں کی عیش و عشرت کر کے جب مرو گے تو کس منہ سے اپنے رب کے پاس جاؤ گے”۔

ڈاکٹر باسل شہید کا یہ پیغام مسلم اور عرب دنیا کے بے حس اور غیرت سے عاری حکمرانوں کو وہ کچھ کہہ گیا جو کہ  بڑے سے بڑا خطیب، واعظ اور مقرر اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے باوجود نہیں کہہ سکتا کیونکہ ڈاکٹر باسل کے الفاظ میں کردار اور عمل کی طاقت تھی۔ اللہ نے اسے آخری دم تک اپنے مسلم بھائیوں کی خدمت کرنے کی توفیق دی اور وہ دشمن کے ہاتھوں شہادت کے منصب پر فائز ہوا۔

ڈاکٹر میدھت سیدم  نے تمام دن اور ہسپتال میں  زخمیوں کے علاج معالجے میں گزارے، جب اس نے اپنے خاندان کے پاس واپس آنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں اور ان کی خیریت  جان سکیں۔ تو وہاں موت ان کی اور تمام ممبران کی منتظر تھی۔  ہسپتال کے قریب ان کے گھر کو اسرائیلی طیاروں نے نشانہ بنایا اور وہ خاندان سمیت شہد کردیا۔

8 نومبر کو فارماسسٹ ڈاکٹر ایاد شکورہ جن کی عمر 42 سال تھی اور وہ  جنگ کے دوران ایمرجنسی روم میں کام کرتے تھے، ہسپتال میں اپنے بچوں، ماں اور رشتہ داروں کی لاشیں دیکھ کر اپنا آپ سنبھال نہ سکے۔ شکورہ خاندان ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید کردیا گیا جس نے  خان یونس میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا، جس پر اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری کی گئی۔

ڈاکٹر ایاد نے ایک ایک کر کے شہید ہونے والوں کے نام لینا شروع کیے اور کہنے لگے:  میں نے اپنی  ماں اور بھائیوں کو کھو دیا، میں نے اپنی بہن کو اس کے 2 بیٹوں کے ساتھ کھو دیا، اور میں نے اپنے دو پیارے بیٹے، عبدالرحمن کو کھو دیا چھوٹے بیٹے عمر کو کھو دیا۔

اللہ اکبر یہ ڈاکٹرز وہ بہادر فائٹرز اور مجاہد ہیں جو ہتھیار نہیں ڈالتے، جو شکست تسلیم نہیں کرتے۔ غزہ کے ڈاکٹروں کی عزیمت کی داستان رقم کردی۔  الشفاء ہسپتال کے فلسطینی ڈاکٹر محمد سمیر کو بھی دیکھیں۔ ان کی جانب سے انسٹاگرام پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں انہیں روٹی کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں ڈاکٹر سمیر نے کہا: ’’مجھے روٹی چکھے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا، “ہمیں روٹی ملی، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ ہمیں کس نے فراہم کی، ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ یہ کہاں سے آئی، لیکن یہ واضح ہے کہ اسے ہسپتال کے اندر پکایا گیا تھا۔”

اسپتالوں میں بجلی اور ایندھن کی عدم موجودگی میں، ڈاکٹروں نے موبائل فون کی روشنی سے زخمیوں کے آپریشن کیے۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے۔

غزہ میں ڈاکٹروں کی ثابت قدمی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے، جس میں مشہور نارویجن ڈاکٹر اور عالمی یکجہتی کے کارکن میڈس گلبرٹ کی جانب سے اعتراف بھی شامل ہے، جنہوں نے انہیں “بہادر جنگجو جو ہتھیار ڈالنا نہیں جانتے” کے الفاظ سے یاد کیا۔

ڈاکٹر گلبرٹ، جس نے غزہ میں 16 سال سے رضاکارانہ طور پر کام کیا ہے، نے ایک ہسپتال کے اندر سے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے جھلسنے والے ایک بچے کا علاج کم سے کم وسائل کے ساتھ ہو رہا ہے۔

ویڈیو میں گلبرٹ نے کہا کہ: “غزہ نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ جنوبی غزہ کے ہسپتال میں میرے بہادر ساتھی جلے ہوئے بچوں کا علاج کر رہے ہیں جو کچھ ان کے پاس ہے، درد کو کم کرنے کے لیے دستی پنکھوں کی طرح۔ وہاں کوئی بھی درد کش ادویات دستیاب نہیں ہیں  جو کہ ظالم اسرائیل کی وجہ سے ہیں۔ غزہ کی ناکہ بندی لیکن غزہ کے بہادر عوام ہتھیار نہیں ڈالتے اور ہمیں بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔

میڈس گلبرٹ، ایک نارویجن ڈاکٹر اور انسانی ہمدردی کے کاموں میں ایک ممتاز شخصیت، نے الشفا ہسپتال کے نیچے مزاحمتی سرنگوں کے بارے میں اسرائیلی قبضے کے بیانیے کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں کو غزہ کی ہولناکیوں سے بچانے میں ناکامی پر بین الاقوامی اداروں کو تنقید بنایا اور اس وجہ سے وہ کافی شہرت رکھتے ہیں۔

غزہ کے ڈاکٹروں نے عزم کا اظہار کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ہسپتال کو نہ جانےکب  مکمل طور پر بموں سے اڑا دیا جائے، لیکن ہم فاتحین یا شہیدوں بنیں گے اس کے علاوہ دوسری آپشن نہیں ہے۔ ہم الشفاء کے اندر ہزاروں مریضوں اور بے گھر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور ہم انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اسی پر جان جان آفرین کے ہاں پیش کردیں گے۔

انگریزی سے ترجمہ و تالیف: الیاس حامد