ہمیں بس اپنے ” ضمیر “ کی تسلّی اور تشفّی چاہیے، چاہے وہ طفل تسلّیوں ہی سے کیوں نہ میسّر آئے، چاہے اِس کے لیے ہمیں پورے سماج ہی کو موردِ الزام کیوں نہ ٹھہرانا پڑے، ہم اپنے ” ضمیر “ نامی اس جذبے اور احساس کو تھپکیاں دے کر سُلانے کی پوری سعی کرتے ہیں، ہم نے ” ضمیر “ کو اِس قدر بے چارگی کے سانچے میں ڈھال رکھا ہے کہ یہ بے چارہ دو چار جھوٹی طفل تسلّیوں ہی سے گہری نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔جب کوئی سانحہ اور المیہ سان گمان کی حدود کو توڑ کر باہر آ کھڑا ہوتا ہے تو ضمیر یک دَم ہڑبڑا کر اٹھتا ہے، ایک طوفان سا بپا ہوتا ہے مگر ہم اپنے بے کَل ضمیر کو سمجھاتے ہیں کہ اِس کا سبب تو معاشرتی گراوٹ ہے، یہ سب کچھ تو میڈیا کی گمراہی کی وجہ سے ہُوا ہے۔بالآخر ضمیر یہ سارے دلائل سُن کر پھر خراٹے لینے لگتا ہے۔ہم کچھ ایسے ہی سرابوں میں خود کو مبتلا رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔” ضمیر احمد خان “ کا شعر ہے۔
تجھ کو کرنا ہے لاجواب ضمیرؔ
ایسا دل میں سوال پیدا کر
سوال یہ ہے کہ معاشرہ کیا ہے؟ کیا معاشرہ اینٹ، پتّھر، رَیت اور مٹّی کے مجموعے کو کہتے ہیں؟ کیا ہم معاشرے کا حصّہ نہیں؟ کیا ہم میں سے ہر فرد اِس معاشرے کی اکائی نہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر خود کو دوش دینے کی بجائے ہم سارے معاشرے کو سزاوار ٹھہرا کر ہاتھوں کو جھاڑ پونچھ کر کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہم نے ایک لمحے کے لیے توقّف کر کے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ بھارتی فلموں کو کوسنے سے بالی وُڈ اور ہالی وُڈ فلمیں بنانا تو ترک نہیں کر دیں گے؟ کیا معاشرے کو ہر المیے پر مطعون کر کے ہم اپنے فرائضِ منصبی سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
دعا زہرہ اور ظہیر کی کچّی عمروں میں اِس قدر پکّے باغیانہ اور مضبوط اعصاب کیوں کر منتقل ہو گئے کہ وہ مسلسل سوشل میڈیا پر اپنے خاندانوں کی عزت اور آبرو کی دھجیاں اُڑاتے رہے۔ان کے نوخیز دلوں میں ایسے احساسات اور جذبات کیوں کر گَڑ گئے کہ یہ پیہم اپنے غلیظ کام کا دفاع کرتے رہے؟ دعا زہرہ اپنی عمر اور عقل سے بڑھ کر اپنے مکروہ فعل کے حق میں دلائل دیتی رہی۔” سیدہ عرشیہ حق “ کا شعر ہے :-
عورت ہو تم، تو تم پہ مناسب ہے چُپ رہو
یہ بول خاندان کی عزّت پہ حرف ہے
ہم ایسے کسی بھی دل دوز سانحے پر سارے معاشرے کو اتہام و الزام دینے لگتے ہیں اور مجھے کہنے دیجیے کہ سارے معاشرے کو ذمہ دار قرار دے دینا اِن المیوں سے بھی بڑا المیہ ہے۔یہ خود فریبی ہی تو ہے کہ ہم اپنی غفلت شعاری اور تساہل پسندی کو مغربی تہذیب کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذّمہ قرار دے لیتے ہیں۔ایسی اندوہناک کتھائیں اور روحوں کے لیے آزار بن جانے والی سزائیں ہر سُو بکھری پڑی ہیں۔ایسے المیے اِس لیے بھی شہرت حاصل کر لیتے ہیں کہ اپنے یوٹیوب چینلز پر لاکھوں روپے کمانے کے لیے کم عمر لڑکیوں سے انتہائی نازیبا سوالات کر کے ان کے باغیانہ فعل کو درست اور صحیح بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔غیر محرموں کی تحویل میں دعا زہرہ سے ہمہ قِسم کا اوچھا اور گھٹیا سوال پوچھا گیا اور اسے میک اپ کے ذریعے سترہ اور اٹھارہ سال کی لڑکی ظاہر کیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا اٹھارہ سال سے زائد عمر کی لڑکی بھی گھر سے نکل جائے یا بہلا پھسلا کر نکال لی جائے تو کیا پھر ایسا فعل درست ہو جائے گا، نہیں ۔۔۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے ۔۔۔ غلط کام تو غلط ہی رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب کوئی لڑکا مکمل طور پر بغاوت پر اُتر آئے تو پھر ہی والدین کی آنکھیں کیوں کُھلتی ہیں؟ جب کوئی نحیف و ناتواں سی لڑکی سارے معاشرے سے ٹکرانے اور خود کو مٹانے کا عزم کر لیتی ہے تبھی
جھوٹی رعونتوں میں بھونچال کیوں آتا ہے؟ اِن باغیانہ جذبات کو پہلوان بنتے بنتے ایک عرصہ لگ جاتا ہے، اتنے طویل عرصے تک والدین بالخصوص والدہ کیوں آنکھیں بند کیے رکھتی ہے؟ اور جب عشق کا پہلوان ڈولے نکال کر ہمہ قسم کی زنجیریں اور بَیڑیاں توڑ ڈالنے کے لیے سَر کشی اختیار کر لیتا ہے تو پھر والدین چیختے ہیں کہ اب ہماری ناک کَٹ گئی۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی ایسی ناروا حرکات کا ان کے والدین کو علم نہیں ہو پاتا مگر اکثر و بیشتر ایسے گِھناؤنے واقعات سے قبل ہی والدین خاص طور والدہ کو کچھ نہ کچھ علم ضرور ہوتا ہے اور وہ چشم پوشی کرتے ہیں تو پھر نام نہاد بھیانک ” عشق “ کسی بُھوت کی شکل میں نکل کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
اپنے والدین کی عزت اور ناموس کو بٹّا لگا دینے والی دعا زہرہ کی بے باکی اور ظہیر کی بے لگامی پر مشتمل چرب زبانی اور اِس پر مستزاد یوٹیوب چینلز کا گِھناؤنا کردار، یہ سب بہک جانے والی بچیوں کے غلط کردار کی حوصلہ افزائی کرنے کے مجرم ہیں۔
مغربی تہذیب سے متاثر لوگ مغربی تہذیب کو اپنانا باعثِ فخر سمجھتے ہیں، یہ لوگ یورپ کے انداز و اطوار کو گلے لگا کر احساسِ تفاخر کے فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔جب لچھن مغرب کے اپنائے جائیں گے تو نتائج و عواقب بھی وہی برآمد ہوں گے جو آج یورپ کے گلی کوچوں یا سمندر کے ساحلوں پر دِکھائی دیتے ہیں۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تہذیب و ثقافت تو مغرب کی اپنائی جائے اور اس کے ثمرات وہ برآمد ہوں جو اسلامی شعائر پر عمل کرنے کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں؟آج جب یورپ اور مغرب کی عورتیں بھی اپنی تہذیب کے آزار سے بے زار ہو چکی ہیں، یہاں کے کچھ مسلمان اُس گندی تہذیب میں غوطہ زن ہو کر بڑے ہی ذوق اور شوق کے ساتھ شناوری کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
لاریب عزت، توقیر اور مقام و مرتبہ ربّ العزت کی گراں مایہ اور بیش بہا نعمتیں ہوتی ہیں۔انتہائی سعید بخت ہوتے ہیں وہ لوگ جو ربّ کی عطا کی گئی اِن نعمتوں کی حفاظت اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں اور بڑے ہی بدبخت ہوتے ہیں وہ لوگ جو عزت کے نگینوں اور توقیر کے خزینوں کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر بھول جاتے ہیں اور جب یہ سرقہ کر لیے جاتے ہیں تو پھر پورے معاشرے کے کھاتے میں ڈال کر اپنی ذات کو احساسِ جرم سے بچانے کی سعی کرتے ہیں، پھر یہ لوگ اپنے ” ضمیر “ کو فریب دینا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو معاشرتی انحطاط کا نتیجہ ہے، یہ سب کچھ تو بھارتی فلموں کا شاخسانہ ہے مگر لوگ اپنی ذمہ داریوں کے گریبان میں ایک نظر تک ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتے، یہ اپنے فرائضِ منصبی کی فہرست پر طائرانہ نظریں تک ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، یہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر اپنی بے کار جسارتوں سے خود کو مطمئن کرتے ہیں۔بیٹیاں تو گھر آنگن کی گلاب زادیاں ہوتی ہیں اور اسلام ان گُلاب زادیوں کا سب سے بڑا محافظ ہے۔جب تک اپنے قول و فعل کو اسلامی غازے سے دل فریب اور دل آویز نہیں بنایا جائے گا، دعا زہرہ جیسی گلاب زادیوں کو بہکنے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔” خواجہ ضمیر “ کا بہت خوب صورت شعر ہے۔
زندگی اے ضمیرؔ اُس کی ہے
تیری آواز کو جو پہچانے