ہم کبھی کبھی سیکولر دباؤ کے تحت اس قسم کے مباحث میں پڑ جاتے ہیں کہ فلاں چیز کیوں حرام ہے اور فلاں عمل کیوں گناہ ہے؟ ہم کون سا کسی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔۔۔
دراصل یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ ہم نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اچھائی اور برائی کے لبرل/سیکولر پیمانے کو قبول کر لیا ہے: برائی صرف وہ ہے جس سے کسی دوسرے انسان کو ذہنی یا جسمانی نقصان پہنچے۔
حالانکہ گناہ کی جس بہت خوبصورت تعریف کی طرف آج ایک عالم نے توجہ دلائی، اگر اسے ذہن میں رکھا جائے تو ننانوے فیصد کیسز میں ہمارے ذہن میں ایسے شکوک وشبہات پیدا ہی نہیں ہوں گے۔
سو چاہیے کہ گناہ اور جرم کا فرق یاد رکھیں:
“گناہ وہ عمل ہے جس کا نقصان آپ کو مرنے کے بعد پہنچے”
یہ بھی یاد رکھیں کہ سیکولر فکر میں”گناہ” کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں، کیوں کہ یہ ایک خالصتاً مذہبی معاملہ ہے اور سوائے وحی کے کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے یہ جانا جا سکے کہ ہمارے کس عمل کا نقصان ہمیں مرنے کے بعد ہو گا اور کس کا نہیں۔ اور سیکولر ازم کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وحی کو انسانی معاملات میں کسی بھی قسم کی اتھارٹی نہیں دی جا سکتی۔
اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے کسی بھی انسان کا بیک وقت مسلم اور سیکولر ہونا قطعاً ناممکن ہے اور اسی جانب ہم مسلسل توجہ دلاتے رہتے ہیں کیونکہ ہماری نظر میں سب سے بڑا فکری چیلنج یہی ہے کہ سیکولر ازم کو اسلام کے ساتھ کمپیٹیبل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

رضوان اسد خان