سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: جابر ! کیا نکاح کر لیا ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہیں کیا ؟ جو آپ کے ساتھ کھیلا کرتی۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد اُحد کی لڑائی میں شہید ہوگئے تھے اور نو بیٹیاں چھوڑ گئے۔ اب میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کار لڑکی ان کے پاس لا کر بٹھادوں، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : آپ نے بالکل درست کیا ہے۔ (صحیح بخاری : 4052)
⇚یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ اگر خاوند کے والدین یا چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھ بھال کی ضرورت ہو تو بیوی یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائے گی کہ یہ میرا فرض نہیں، بلکہ خاوند کے ساتھ حسنِ معاشرت سمجھتے ہوئے اسے بخوشی یہ خدمت سر انجام دینی چاہیے۔
⇚اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مرد اپنے ہونے والی بیوی پر اپنے گھر والوں کی خدمت کی ذمہ داری ڈالنا چاہتا ہے تو قبل از نکاح اُسے بتا دے کہ آپ کو رضا کارانہ طور پر اپنے سسرال کی دیکھ بھال سنبھالنا ہو گی۔ یا پھر اگر کسی معاشرے یا خاندان میں معروف ہو کہ “بہو” آ کر مشترکہ گھر کی ذمہ داری میں شامل ہوتی ہے اور شادی سے قبل عورت کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہ ہو تو شادی کے بعد اس سے جان چھڑانا یا اعتراض کرنا درست نہیں۔
کیوں کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنی شادی کا مقصد ہی یہ بیان کیا کہ وہ اپنی بہنوں کی دیکھ بھال کے لیے عورت لانا چاہتے تھے، اب یا تو اُن کے ہاں یہ عرف تھا یا انہوں نے شادی سے قبل بیوی پر یہ شرط عائد کی ہو گی، بہر صورت نبی کریم ﷺ نے اُن کے اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ آپ نے بالکل درست کیا ہے ۔
⇚یاد رہے کہ اگر کسی معاشرے میں بہو کا سسرال کی خدمت کرنا عرف نہ ہو یا عورت شادی سے پہلے اُن کی دیکھ بھال سے انکار کر دے اور مرد اس سے مکمل طور پر الگ رہائش کا وعدہ کر لے تو شادی کے بعد اسے مجبور نہیں کر سکتا کیونکہ یہ عہد کی خلاف ورزی ہو گی ۔
⇚ ذہن نشین رہے کہ جس طرح خاوند شادی کے بعد بہت سی خدمات صرف معاشرے کی وجہ سے اور بیوی سے حسنِ سلوک کے طور پر رضاکارانہ سر انجام دیتا ہے حالانکہ وہ اس پر فرض نہیں ہوتیں، اسی طرح بیوی پر بھی جو ذمہ داریاں فرض تو نہیں، انہیں خاوند کے ساتھ حسنِ معاشرت اور احسان کے طور پر رضاکارانہ ادا کرنا چاہیے، خاوند پر ساری معاشرتی ذمہ داریاں اور بوجھ ڈالنا اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو یہ کہہ کر ٹال دینا کہ یہ میرا فرض نہیں، یہ رویہ نہایت غیر مناسب ہے، بلکہ جس طرح وہ احسان کرتا ہے بیوی کو بھی اس پر احسان کرنا چاہیے لہذا کیوٹ اسلام کی حاملین مغربی معاشرے، فلموں، ڈراموں، ناولز اور بعض خواتین مبلغات سے متاثر جدید بچیوں کا فرض فرض کھیلنا کہ فلاں میرا فرض نہیں اور ڈھمکاں میری ذمہ داری نہیں نہایت غیر ذمہ دارانہ، بچگانہ بلکہ گھٹیا مطالبہ ہے، ان کے مطابق ساس سسر بوڑھے ہو جائیں تو انہیں اولڈ ایج ہومز میں بھیج دینا چاہیے یا گھر کو ہی اولڈ ہوم بنا کر اکیلے موت کے انتظار میں چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ان پر سسرال کی ذمہ داریاں فرض نہیں ۔
⇚ اسی طرح اگر عورت کو خاوند کے گھر کام کاج کرنا پڑے یا کچھ مشکلات اٹھانی پڑیں تو اس سے اس کی نہ تو جان جانی چاہیے اور نہ ہی موت پڑنی چاہیے، خاوند بھی اپنا گھر چلانے کے لیے بہت سی مشکلات برداشت کر رہا ہوتا ہے ۔نیز جنت کی عورتوں کی سردار، امامِ کائنات، رسول اللہ ﷺ کی لاڈلی و چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کے گھر کام کرتیں، یہاں تک کہ اُن کے ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے۔ (صحیح بخاری : ٥٣٦١) نبی کریم ﷺ نے کسی جگہ نہیں فرمایا کہ یہ میری لاڈلی و چہیتی بیٹی ہے، خاوند کے گھر کام کاج نہیں کرے گی یا یہ اس کا فرض نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
علماء کے مطابق کسی بھی حدیث میں یہ نہیں آتا کہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاوند کے گھر کے کام کاج کا کوئی فیصلہ صادر کیا ہو ، بلکہ یہ اُن کے ہاں معروف حسنِ معاشرت اور اچھے و عمدہ اخلاق کی بدولت تھا وگرنہ بیوی کو کسی خدمت پر مجبور کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر)
اسی طرح علماء نے لکھا ہے کہ
’’اولاد کی دیکھ بھال میں عورت کا اپنے خاوند کی مدد کرنا اس پر اگرچہ واجب نہیں، لیکن یہ حسنِ معاشرت اور اللہ والی، نیک عورتوں کے خصائل میں سے ہے۔‘‘ (ایضاً)
⇚اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنے والی بہو پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ڈالنی چاہیے جو ضرورت ہو جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنی ضرورت کا ذکر کیا ہے، اس کے برعکس ساس یا سسر کا “بہو” کو حیوان سمجھ کر سارا دن کاموں میں الجھائے رکھنا، نندوں کا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر چارپائی پر براجمان ہو کر بھابھیوں سے اپنی خدمتیں کروانا اور اس بے چاری پر رعب جھاڑتے رہنا یا ضرورت نہ ہونے کے باوجود خاوند کا بیوی کو اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بلاوجہ رہنے پر مجبور کرنا اور اُن کی خدمتوں کا حکم دینا بھی بالکل ناجائز ہے، بلکہ اسے چاہیے کہ بیوی پر اتنی ذمہ داری عائد کرے جو ضروری ہو۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

(حافظ محمد طاھر)