استاد گرامی بقیةالسلف شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی شخصیت ایک روشن مثال اور جامع شخصیت تھی جس نے اپنی زندگی کو علم، عمل اور اخلاق کی راہ پر گامزن رکھتے ہوئے اسلامی معاشرت میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے الفاظ کم پڑجاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک ایسی علمی، دینی اور اخلاقی میراث چھوڑی جو نہ صرف ان کے معاصرین کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔
شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی شخصیت میں متعدد خصوصیات یکجا تھیں۔ آپ بیک وقت مدرس، مفتی، خطیب، ادیب اور شیخ الحدیث تھے، اور ہر پہلو میں آپ کی خدمات نے دینی و علمی دنیا کو ایک نئی سمت دی۔ آپ کی شخصیت کی یہ خصوصیات نہ صرف آپ کو ایک عظیم عالم بناتی ہیں بلکہ آپ کی گہرائی، حکمت اور فکر کی دلیل بھی فراہم کرتی ہیں۔

1️⃣ علمی عظمت:
حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا علم ایک بحرِ ناپیدا کنار کی طرح تھا، جس کی گہرائی میں جتنا بھی غوطہ لگایا جائے، اتنا ہی نیا علم حاصل ہوتا۔ آپ نے حدیث، فقہ، تفسیر،اصول حدیث، اصول فقہ، اصول تفسیر، ادب اور دیگر اسلامی علوم میں گہری دسترس حاصل کی تھی۔

2️⃣ تدریسی خدمات:

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات کا شمار ایک تاریخِ علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے مختلف دینی مدارس میں تدریس کی اور علمی اسلوب میں ایسی اصلاحات کیں جنہوں نے تعلیم و تدریس کے میدان میں ایک نیا معیار قائم کیا۔ آپ کا درس نہ صرف علمی لحاظ سے جامع و مستند تھا، بلکہ آپ کی تعلیم میں ایک لطافت اور اثر تھا جس کی بدولت طلبہ آپ کی کلاسز میں خصوصی طور پر حاضر ہوتے تھے۔ آپ کا اسلوب بیان اتنا دلکش اور سلیس تھا کہ ہر طالب علم آپ کی باتوں کو دل و جان سے قبول کرتا۔ آپ کے شاگرد آپ کو نہ صرف استاد، بلکہ ایک روحانی مرشد کے طور پر بھی دیکھتے تھے، کیونکہ آپ نے علم کو محض ایک عقلی سرگرمی نہیں سمجھا، بلکہ اس میں روحانیت اور اخلاقی تعلیمات کو بھی ہم آہنگ کیا۔

3️⃣ روحانیت و اخلاق:

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی شخصیت میں روحانیت کی ایک گہری لذت چھپی ہوئی تھی۔ آپ کی زندگی اللہ کی محبت، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور دین اسلام کی خدمت میں گزری۔ آپ کی عبادت میں خشوع و خضوع تھا اور ہر عمل میں تقویٰ اور صداقت کی جھلک تھی۔ آپ کا اخلاق نہایت بلند اور سادہ تھا۔ آپ نے ہمیشہ علم کو عمل کا حصہ بنایا، اور اس میں توازن پیدا کیا۔ آپ کی زندگی کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے کبھی بھی علم کو صرف نظریہ یا کتابی علم تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس علم کو اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نافذ کیا اور اپنے عمل سے دوسروں کے لیے نمونہ پیش کیا۔ آپ کی عاجزی اور تواضع نے آپ کو ایک ایسی بلند مقام پر پہنچا دیا جہاں آپ کی شخصیت کا ہر پہلو لوگوں کے دلوں میں ایک خاص مقام بن گیا۔

4️⃣ علمی مرتبہ اور اثر:

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا علمی مرتبہ ایسا تھا کہ آپ کے کلمے پر ہر شخص اعتماد کرتا تھا۔آپ کی شخصیت میں جو سادگی تھی، وہ نہ صرف آپ کی تعلیمات کو کامیاب بناتی تھی بلکہ آپ کی زندگی میں اس بات کا بھی مظہر تھی کہ علم کا مقصد صرف اللہ کی رضا اور انسانیت کی خدمت ہے۔ آپ کی علمی محافل اور سیمینارز آج بھی زندہ ہیں اور ان میں آپ کی باتوں کا اثر محسوس ہوتا ہے۔

5️⃣ مستقبل کے لیے پیغام:

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی زندگی ایک پیغام دیتی ہے کہ علم کا اصل مقصد صرف دنیاوی فوائد کا حصول نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا ہے۔ آپ کی زندگی نے یہ ثابت کیا کہ جب انسان اپنی محنت، علم اور عمل کو خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کی رضا کے لیے وقف کرتا ہے، تو اس کی شخصیت کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ آپ کی سادگی، علم و عمل، اور اخلاق نے انہیں ہمیشہ زندہ رکھا ہے۔
🔘 شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا انتقال ایک عظیم علمی نقصان تھا، لیکن ان کی تعلیمات اور خدمات کا اثر آنے والی نسلوں تک پہنچتا رہے گا۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو ہمارے لیے ایک سبق ہے، اور ان کی زندگی ایک درخشاں مثال کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گی۔

6️⃣ بطور خطیب:

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ ایک جلیل القدر خطیب بھی تھے۔ آپ کی تقاریر میں نہ صرف دینی نصیحتیں ہوتی تھیں بلکہ آپ کی خطابت میں ایک جذباتی اور فکری گہرائی تھی جس سے سامعین پر گہرا اثر پڑتا تھا۔ آپ کی تقریروں میں حکمت، فہم اور دلائل کی قوت تھی، جو سننے والوں کے دلوں تک پہنچتی تھی۔ آپ نے ہمیشہ اپنے خطبوں میں معاشرتی مسائل، اخلاقی تعلیمات اور دینی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا، جس سے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی۔

7️⃣ بطور ادیب:

آپ کا ادبی ذوق بھی بے مثال تھا، اور آپ نے اپنے علمی اور دینی موضوعات کو ادبی انداز میں پیش کیا۔ آپ کی تحریریں نہ صرف علمی حوالے سے اہم تھیں بلکہ ان میں ایک ادبی جمالیات بھی تھی جو قاری کو نہ صرف علم فراہم کرتی بلکہ اسے سلیقے سے پیش کی گئی۔ آپ کی تحریروں میں سادگی اور وضاحت کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی لطافت اور گہرائی تھی، جس سے وہ آسانی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی۔

8️⃣ بطور شیخ الحدیث:

حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا سب سے اہم پہلو آپ کی شیخ الحدیث کی حیثیت تھی۔ آپ نے حدیث کی تعلیم و تدریس میں اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی اور اس علم میں گہرا عبور حاصل کیا تھا۔ آپ نے نہ صرف حدیث کے موضوعات کی تدریس کی بلکہ اس کے راویوں کی تاریخ، اصول اور اس کی صحت کی جانچ پڑتال میں بھی مہارت حاصل کی۔ آپ کی تدریس میں طلبہ کو حدیث کی اصل روح سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی، جس سے وہ علم حدیث میں نہ صرف ماہر بنتے تھے بلکہ اس علم کے اصولوں اور ضوابط کو بھی بخوبی سمجھ پاتے تھے۔
🔘 شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی شخصیت میں مدرس، مفتی، خطیب، ادیب اور شیخ الحدیث کی تمام خصوصیات یکجا تھیں، اور ہر پہلو میں آپ کی خدمات نے علمی اور دینی دنیا میں ایک نئی روشنی ڈالی۔ آپ کا علم، آپ کی تدریس کا انداز، آپ کا خطبہ اور آپ کی تحریریں آج بھی لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ آپ کی زندگی کا مقصد صرف علم کا پھیلاؤ نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے علم کو عمل میں ڈھال کر لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کی کوشش کی۔ آپ کی شخصیت کا یہ جامع امتزاج آج بھی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ علم، عمل اور اخلاق کو یکجا کر کے ہی انسان بہترین کردار اور معاشرتی تبدیلی لا سکتا ہے۔

نام ونسب

حافظ عبدالعزیز علوی بن حافظ احمد اللّٰه بڈھیمالوی بن میاں قادر بخش اور پردادا کا نام حاجی علی محمد تھا

ولادت با سعادت

حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں بڈهیمال میں 15 فروری 1943ء کو پیدا ہوئے۔

ابتدائی حالات

حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی ولادت 15 فروری 1943ء کو مشرقی پنجاب کے ایک خوبصورت گاؤں، بڈھیمال میں ہوئی۔ ان کا وجود اس گاؤں کی فضاؤں میں نور کی مانند تھا۔ قدرت نے انہیں ایک ایسا دلکش وقت عنایت کیا، جب زندگی اپنی پوری رنگینی کے ساتھ محوِ سفر تھی۔
🔘 مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب یہ محض ساڑھے چار برس کے تھے، ملک کی تقسیم کا سانحہ پیش آیا۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب زمینیں بٹ رہی تھیں، رشتے ٹوٹ رہے تھے، اور لوگ اپنی جڑیں چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں نئی زمینوں کی تلاش میں نکل رہے تھے۔
اس کٹھن سفر کے دوران، ان کا خاندان بھی انہی مشکلات سے گزرتا ہوا پاکستان کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں، چک نمبر 36 گ ب، میں آ کر ٹھہرا۔ یہی جگہ ان کے خاندان کی نئی زندگی کی ابتدا کا نقطہ ثابت ہوئی، جہاں وہ سکونت پذیر ہوئے اور اپنی داستانِ حیات کا آغاز کیا۔

ابتدائی تعلیم اور علمی سفر

شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے علم کے چراغ کو جلانے کا آغاز اپنے آبائی گاؤں بڈھیمال سے کیا۔ چھوٹی سی عمر میں تعلیم کی طلب ان کے اندر ایک شعلے کی مانند روشن تھی۔ جب ہجرت کے بعد ان کا خاندان چک نمبر 36 گ ب میں آباد ہوا، تو یہ سلسلہ وہیں جاری رہا۔ مگر تقدیر انہیں ایک اور راستے پر لے جانے والی تھی۔
🔘 کچھ عرصہ بعد ان کے والد، حافظ احمد اللہ رحمہ اللہ، جھوک دادو کے مدرسہ خادم القرآن والحدیث میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے۔ شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے وہاں کے سرکاری اسکول سے مڈل کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ان کے والد اوکاڑہ منتقل ہوئے، جہاں انہوں نے چھٹی جماعت کا امتحان دیا اور اپنی تعلیمی مہارت کو مزید جِلا بخشی۔
🔘 تعلیم کے سفر میں شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا عزم و حوصلہ نمایاں رہا۔ 1961ء میں، انہوں نے فیصل آباد میں پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دیا اور شاندار کارکردگی کے ساتھ فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ اس وقت ان کے والد فیصل آباد کے مدرسہ دارالقرآن والحدیث میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، اور شیخ عبدالعزیز علوی نے بھی اسی مدرسے میں پانچ برس تک دینی علوم حاصل کیے۔ اس دوران انہوں نے حدیث کی اہم کتاب جامع ترمذی سمیت دیگر نصابی کتب کا مطالعہ کیا۔
🔘 میٹرک کے امتحان کے بعد، پروفیسر غلام احمد حریری رحمہ اللہ نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، اسلامیہ کالج میں داخلہ دلانے اور اخراجات خود اٹھانے کی پیشکش کی۔ مگر حافظ احمد اللہ رحمہ اللہ کا ارادہ واضح تھا: “اسے دینی تعلیم ہی دی جائے گی۔” اس فیصلہ نے شیخ عبدالعزیز علوی کی زندگی کا رخ ہمیشہ کے لیے متعین کر دیا، اور وہ دین کی خدمت کے لیے وقف ہو گئے۔
🔘 یہ ابتدائی تعلیمی سفر نہ صرف ان کی علمی جستجو کا عکاس ہے بلکہ ان کے والد کی بصیرت اور تربیت کی گواہی بھی دیتا ہے، جنہوں نے دنیاوی علوم پر دینی تعلیم کو ترجیح دی۔

جامعہ محمدیہ میں داخلہ

1963ء کا سال حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کے علمی سفر میں ایک اہم موڑ لے کر آیا۔ انہوں نے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں داخلہ لیا اور وہاں حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم کا درس شروع کیا۔ یہ ان کے شوقِ علم کی ایک نئی منزل تھی، لیکن قدرت انہیں ایک اور بڑے امتحان کی طرف لے جا رہی تھی۔
🔘 1964ء میں، حکومت پاکستان نے بہاول پور میں جامعہ اسلامیہ کے نام سے ایک دینی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ اس جامعہ میں داخلے کے لیے شرط رکھی گئی کہ امیدوار کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہو اور داخلے کے امتحان میں کامیاب ہو۔ جامعہ محمدیہ کے شیخ الحدیث، مولانا محمد عبده الفلاح رحمہ اللہ نے حافظ احمد اللہ رحمہ اللہ سے مشورہ کیا اور شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کو اس امتحان میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔

بڑا چیلنج

یہ ایک بڑا چیلنج تھا، کیونکہ حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں تھے۔ باوجود اس کے، انہوں نے ہمت کی، امتحان کی تیاری شروع کی، اور اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھتے ہوئے امتحان میں شریک ہو گئے۔ اس امتحان میں ملک بھر سے تین سو سے زائد طلبہ نے حصہ لیا، لیکن کامیابی صرف سترہ خوش نصیبوں کا مقدر بنی، جن میں شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔
یہ کامیابی اللہ کے فضل کا واضح مظہر تھی، کیونکہ امتحان میں شامل صحیح بخاری، تفسیر بیضاوی اور ہدایہ جیسی درسی کتابوں کا انہوں نے مطالعہ نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود، اللہ نے انہیں اپنی خصوصی مدد سے کامیابی عطا فرمائی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کامیاب ہونے والے سترہ طلبہ میں سے پندرہ کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا، جبکہ صرف دو اہل حدیث تھے، اور ان میں ایک نمایاں نام حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا تھا۔
یہ مرحلہ ان کے علمی سفر کا نہ صرف سنگِ میل ثابت ہوا بلکہ ان کے عزم و استقلال اور اللہ پر یقین کی ایک بے مثال داستان بھی بن گیا، جس نے ان کے مستقبل کی سمت متعین کر دی۔

جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے اساتذہ اور علمی تربیت

جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کو جن جلیل القدر اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا شرف ملا، ان کے اسمائے گرامی تاریخ میں ان کے مقام و مرتبہ کی عکاسی کرتے ہیں:
1️⃣ مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ
2️⃣ مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ
3️⃣ مولانا سعید احمد کاظمی رحمہ اللہ
یہ وہ ہستیاں تھیں جن کے سامنے شیخ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان کی علمی روشنی سے مستفید ہوئے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور سے فراغت کے بعد، انہوں نے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے دوبارہ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کا رخ کیا۔ وہاں شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ کے زیر سایہ تعلیم جاری رکھی۔

جامعہ محمدیہ اوکاڑہ

جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں تدریسی سفر کا آغاز
مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ کی محبت اور حوصلہ افزائی نے حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کو تدریس کی طرف راغب کیا۔ انہیں جامعہ محمدیہ کے طلبہ کو تفسیر بیضاوی اور عربی ادب کی کتاب العبرات پڑھانے کا موقع ملا، حالانکہ یہ دونوں کتابیں انہوں نے خود نہیں پڑھی تھیں۔ مشکل مقامات پر مولانا محمد عبدہ سے رجوع کرتے، جس سے انہیں تدریسی تجربہ حاصل ہوا اور وہ اس میدان میں مہارت پیدا کرنے لگے۔
1966ء میں جامعہ محمدیہ سے سند فراغت حاصل کرنے پر انہیں “جامعہ کے بہترین طالب علم” کا انعام دیا گیا، جو ان کی محنت اور قابلیت کا اعتراف تھا۔

جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ

جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعد 1967ء میں، عید الاضحیٰ کے فوراً بعد، انہوں نے گوجرانوالہ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ سے صحیح بخاری پڑھ سکیں۔ یہاں انہوں نے قرآن مجید حفظ کرنے کا بھی عزم کیا۔ گوجرانوالہ کے جامعہ اسلامیہ میں حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ سے انہوں نے نہ صرف صحیح بخاری پڑھی بلکہ قرآن مجید کے پندرہ پاروں کا ترجمہ بھی سیکھا۔ اسی دوران انہوں نے قرآن پاک مکمل حفظ کر لیا۔
یہ مرحلہ ان کی زندگی کا ایک نیا باب تھا، جہاں انہوں نے دینی علوم کے ساتھ تدریس اور عملی زندگی کی تیاری کے لیے خود کو مزید مضبوط کیا۔ ان کی محنت، استقامت اور اللہ کی مدد نے انہیں ایک ممتاز عالم اور معلم کے طور پر ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مشہور اساتذہ کرام

حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں علم کی روشنی پھیلانے والے کئی جلیل القدر اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ ان کے معروف اساتذہ میں مندرجہ ذیل شخصیات شامل ہیں:
(1)فضیلة الشیخ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ
(2)فضیلتہ الشیخ عبداللہ ویروالوی رحمہ اللہ
(3) فضیلتہ الشیخ محمد عبده الفلاح رحمہ اللہ
(4) فضیلتہ الشیخ احمد اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ
(5) مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللہ
(6) پروفیسر غلام احمد حریری رحمہ اللہ
(7) مولانا عبدالرشید حنیف جھنگوی رحمہ اللہ
(8) مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ
(9) مولانا معاذ الرحمن رحمہ اللہ
(10) مولانا ہدایت اللہ ندوی رحمہ اللہ
(11) مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ
(12) حافظ بشیر احمد بھوجیانی رحمہ اللہ
(13) مولانا سعید احمد کاظمی رحمہ اللہ
(14) مولانا فتح اللہ ایرانی رحمہ اللہ
(15) فضیلتہ الشیخ مولانا میر زاہد رحمہ اللہ
یہ وہ اساتذہ ہیں جن سے حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے مختلف مراحل میں علمی فیض حاصل کیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی اساتذہ کرام ایسے تھے جنہوں نے ابتدائی عمر میں ان کی تعلیم و تربیت میں کردار ادا کیا۔ خاص طور پر سرکاری اسکول کے وہ اساتذہ، جنہوں نے ان کے تعلیمی سفر کی بنیاد رکھی، انہیں قلم پکڑنے، حروف و الفاظ کی پہچان کروانے، اور زبان کو الفاظ کے درست تلفظ سے آشنا کرنے کی تربیت دی۔

ابتدائی اساتذہ کا مقام

ہم عموماً ابتدائی اساتذہ کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ ان کی محنت اور توجہ سے ہی ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کی مشکل ترین منزلوں کو عبور کرتا ہے۔ ان اساتذہ نے حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کو بنیاد فراہم کی، جس پر ان کا علمی مقام قائم ہوا۔
بیشک، تمام اساتذہ، خواہ وہ ابتدائی دور کے ہوں یا بعد کے، ہمارے لیے باعثِ فخر ہیں۔ ان کی محنت، تربیت، اور رہنمائی کی روشنی نے حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کو ایک ممتاز عالم اور مربی کے مقام پر فائز کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام اساتذہ کی محنتوں کو قبول فرمائے اور انہیں جزائے خیر عطا کرے۔

تدریسی خدمات کا آغاز

تحصیل علم کے بعد حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کے زندگی کا کاروان ایک نئے سفر کی جانب گامزن ہوا۔ وہ طلب علمی کی منزل سے گزر کر معلمی کے مبارک دور میں داخل ہوئے۔ ان کی خوش نصیبی یہ تھی کہ فراغت کے فوراً بعد انہیں تدریس کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا۔ تاہم، اس سے قبل ایک دلچسپ واقعہ ان کے مضبوط اصولوں کا مظہر ہے۔

دلچسپ واقعہ

فراغت کے بعد، حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے آرمی کور ایجوکیشن میں تدریسی خدمات کے لیے درخواست دی۔ انٹرویو کے دوران، انہیں بے لباس ہو کر جسمانی معائنہ کے ٹیسٹ دینے کا کہا گیا، لیکن ان کے دینی غیرت اور عزت نفس نے اس مطالبے کو قبول نہ کیا۔ انہوں نے فوراً انکار کیا اور وہاں سے واپس لوٹ آئے۔

جامعہ تعلیمات فیصل آباد میں تدریس

1967ء میں، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ کی پیش کش پر حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے ان کے قائم کردہ ادارے جامعہ تعلیمات، فیصل آباد میں تدریس کا آغاز کیا۔ اس وقت جامعہ تعلیمات فیصل آباد ایک علمی مرکز کے طور پر اپنی پہچان بنا رہا تھا، اور حافظ صاحب نے وہاں مسلسل پانچ سال (1967ء تا 1972ء) تدریسی خدمات انجام دیں۔
یہ ان کے تدریسی سفر کا آغاز تھا، جہاں انہوں نے اپنی تعلیمی قابلیت اور دینی شعور کے ذریعے طلبہ کے دلوں میں علم کی محبت پیدا کی۔ ان کی تدریس میں اخلاص، محنت، اور طلبہ کی تربیت کا جذبہ نمایاں تھا۔ یہ ابتدائی دور ان کے لیے نہ صرف تجربات کا خزانہ ثابت ہوا بلکہ مستقبل کی معلمی کے لیے مضبوط بنیاد بھی فراہم کی۔

مختلف مدارس میں تدریس

ماموں کانجن کی سرزمین نے علم و تدریس کے ایک ایسے ستارے کو اپنی آغوش میں جگہ دی، جو علم کے نور سے نسلوں کو منور کرتا رہا۔ 1973ء میں، جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں تدریس کا آغاز ہوا، جہاں علم کی شمعیں روشن کیں۔ پھر 1974ء میں دارالقرآن فیصل آباد کی خدمت کا موقع ملا، جہاں ایک سال تک قرآن کے نور کو عام کیا۔ 1976ء تک شیخوپورہ میں مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ کی زیرِ سرپرستی جامعہ محمدیہ میں تدریسی ذمہ داریاں نبھائیں۔
1977ء میں دوبارہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن لوٹ آئے اور تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی سال سید حبیب الرحمن شاہ مرحوم، راولپنڈی کے مدرسے میں علم کی روشنی بانٹنے کے لیے لے جایا گیا، جہاں 1982ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر گھر واپسی ہوئی، مگر علم کی پیاس بجھانے کا سلسلہ جاری رہا۔

جامعہ سلفیہ فیصل آباد

1989ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریس کا آغاز کیا اور یہاں زندگی کی آخری سانس تک شیخ الحدیث کی حیثیت سے علم کا فیضان جاری رکھا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم کی خدمت، نوجوانوں کی رہنمائی اور دین کی ترویج کے لیے وقف رہا۔
تدریس و تصنیف کو صدقہ جاریہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر یہ خدمت صدق دل سے کی جائے اور لوگوں کی اصلاح کا جذبہ ذہن میں موجزن ہو تو بارگاہ الہی میں یقینا اسے شرف قبول سے نوازا جائے گا۔
درسِ نظامی کی پہلی جماعت سے لے کر آخری جماعت تک، حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ نے ہر سطح پر تدریسی فرائض انجام دیے ہیں۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث، اصولِ فقہ، صرف، نحو، منطق، فلسفہ، عربی ادب، بلاغت اور معانی جیسے علوم پر ان کی گرفت بے مثال ہے۔ دینی نصاب میں شامل تقریباً تمام کتب وہ بارہا پڑھا چکے ہیں، اور ان کی تدریس کی مہارت ایسی ہے کہ یہ کتب گویا ان کے حافظے میں نقش ہو چکی ہیں۔

شیخ الحدیث سے کسب فیض کرنے والے

حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ کی علمی و تدریسی خدمات نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ 1967ء میں تدریس کا آغاز کرنے والے اس نابغہ روزگار استاد نے علم و عرفان کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تدریس سے بے شمار علماء اور طلبہ نے فیض حاصل کیا، اور ان کے شاگردوں کی تعداد کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔
شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کے شاگردوں نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دی ہیں اور آپ کے علمی اور تربیتی اثرات کا تاثر ان کے کاموں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ آپ کی تعلیمات اور تربیت نے نہ صرف دینی میدان میں بلکہ مختلف علمی، تدریسی اور اصلاحی شعبوں میں بھی نمایاں کام کرنے والے علماء اور رہنماؤں کی ایک نسل تیار کی۔
آپ کے شاگردوں نے آپ کی تعلیمات کو زندہ رکھا اور انہیں اپنے تدریسی اداروں، دینی مدارس اور خطبہ گاہوں میں منتقل کیا۔ ان کے ذریعے آپ کے علمی ورثے کو پاکستان کے مختلف حصوں میں پھیلایا گیا، اور آپ کی تدریس کی وہی روح، جو علم و عمل کا حسین امتزاج تھی، آج بھی ان کے کاموں میں جوتوں کی طرح چمکتی ہے۔

شیخ محترم کی تصنیفی خدمات

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی تصنیفی خدمات نے دینی اور علمی دنیا میں گراں قدر اضافہ کیا۔ آپ نے اپنے علم، تحقیق اور تجربے کو کتابی صورت میں محفوظ کر کے ایک ایسا علمی ذخیرہ چھوڑا جو نہ صرف آپ کے عہد کے علماء بلکہ بعد کی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ بن گیا۔ آپ کی تصانیف میں علم حدیث، فقہ، اور دیگر اسلامی علوم کی گہرائی اور وسعت واضح طور پر جھلکتی ہے۔
آپ کا سب سے اہم کام علم حدیث پر تھا۔
🔘 آپ نے بعض اہم دینی کتابوں کے تراجم اور شروحات بھی کیں۔ آپ کی شروحات میں سادگی، وضاحت اور علم کا حسین امتزاج تھا، جس سے پڑھنے والوں کو مشکل ترین موضوعات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی تھی۔ آپ نے ہمیشہ علم کو اس انداز میں پیش کیا کہ وہ نہ صرف علما بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی قابل فہم ہو۔

تصنیفی وتحقیقی کتب

حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی قلمی خدمات علم و تحقیق کے میدان میں گراں قدر اور متنوع تھے ۔ انہوں نے تصنیف و تالیف کے سفر کا آغاز 1965ء میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے کیا اور وفات تک اس کا سلسلہ جاری رہا ۔ تصنیف و تدریس، دونوں الگ نوعیت کے محنت طلب اور گہرائی کے متقاضی میدان ہیں، لیکن حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ان دونوں شعبوں میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی تصنیفی و تحریری کاوشیں درج ذیل ہیں:

(1). الناسخ والمنسوخ: علومِ قرآن پر یہ مقالہ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں لکھا۔

(2). الجرح والتعدیل: علومِ حدیث سے متعلق یہ مقالہ بھی اسی دور کا تحریر کردہ ہے۔

(3).مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ کی دی گئی عربی کتاب کا اردو ترجمہ کیا، جو استاذ محترم کو پیش کیا اور پسند کیا گیا۔

(4). جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے حکم پر ان کی کتاب زبدۃ الایمان کا ترجمہ پیش کیا۔

(5). رسائل اثبات التوحید اور ابطال التثلیث کی تسہیل اور ذیلی عنوانات تیار کیے۔

(6). صحیح بخاری کے تراجم ابواب کی تشریح و توضیح ۔

(7). علم نحو کی مشہور کتاب الفیہ ابن مالک کی تفصیلی شرح، جو ایک علمی شاہکار ہے۔

(8). شرح شذوذ الذہب کی تلخیص۔

(9). طلاق ثلاثہ پر مبسوط مقالہ۔

(10). مطالعہ قرآن کے موضوع پر سلسلہ وار مضامین تحریر کیے، جن میں سے چند ترجمان الحدیث میں شائع ہوئے۔

(11). حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست پر تفصیلی مقالہ۔

(12). ولایتِ نکاح کی شرعی حیثیت پر تحقیقی مقالہ۔

(13). مفقود الخبر کی بیوی کے نکاح کی اجازت پر مقالہ۔

(14). اسلامی نظام حکومت پر مقالہ۔

(15). فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا پر علمی تحقیق۔

(16). عاشورہ کے روزے پر مضمون۔

(17). قرآن کی نظم و ترتیب پر تنقیدی مقالہ، جو ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث میں مختلف قسطوں میں شائع ہوا۔

(18). صحیح مسلم کا اردو ترجمہ اور تشریح

(19). جامع ترمذی اور عمل ترمذی کا ترجمہ اور تشریح ۔

(20). قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی کتاب شرح اسماء اللہ الحسنی کی نظرثانی۔

(21). امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الوابل الصیب کا ترجمہ۔

(22). امام ابن شہاب زہری اور امام مسلم بن حجاج کے عربی حالات کا اردو ترجمہ۔

(23). مولانا محمد خالد سیف کے ترجمہ تفسیر ابن کثیر پر مقدمہ۔

(24). تصویر کی شرعی حیثیت پر ماہنامہ محدث میں مقالہ۔

(25). امام ابن قیم کی کتاب اغاثۃ اللھفان کی پہلی جلد کا ترجمہ مکمل۔

اس کے علاوہ بھی بے شمار کتب ہیں جن پر آپ نے نظر ثانی ،تقریظ، تنقیح اور تبییض کا کام سرانجام دیا
جہاں آپ کو تحریر و تصنیف سے خاص شغف ہے وہیں آپ کے پاس ذاتی کتب کا ایک ذخیرہ لائبریری کی شکل میں جامعہ سلفیہ میں موجود ہے۔

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ کی وفات

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی وفات ایک عظیم علمی و دینی سانحہ ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ ان کی شخصیت علم و عمل، تقویٰ و خشیت اور خلوص و للہیت کا حسین امتزاج تھی۔ ان کی تدریس قرآن و حدیث اور دین کی خدمت کے لیے زندگی بھر کی محنت آج کے طلبہ اور علماء کے لیے مشعل راہ ہے۔
حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ 10/12/2024 بروز منگل کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات نے علمی و دینی حلقوں کو گہرے غم میں مبتلا کر دیا۔ ان کا جنازہ 11/12/2024 تاریخ کو ادا کیا گیا، جو ایک تاریخی اجتماع کی شکل اختیار کر گیا۔ جنازے میں علماء کرام، طلبہ، اساتذہ، اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
نمازِ جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ نے پڑھائی، جو خود بھی علمی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔
یہ اجتماع نہ صرف حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی عظمت و مقبولیت کی گواہی دے رہا تھا بلکہ اس بات کا بھی اظہار کر رہا تھا کہ دینی خدمات انجام دینے والے علماء ہمیشہ قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ علماء اور طلبہ کے جم غفیر نے ان کے جنازے میں شرکت کر کے یہ پیغام دیا کہ دین کی خدمت کرنے والی شخصیات کا ورثہ ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے، اور ان کی قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار بنتی ہیں۔
حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی جدائی ان کے شاگردوں اور چاہنے والوں کے لیے ایک گہرا صدمہ ہے، لیکن ان کا علمی ورثہ اور تربیتی نقوش ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

مزید جاننے کے لیے

شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کے متعلق مزید جاننے کے لیے مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی کتاب “گلستان حدیث “کا ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں آپ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

🤲 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کی دینی،دعوتی، تصنیفی، تعمیری، تدریسی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

ناشر: حـافظ امجـد ربــانی
فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں: شیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کا مختصر تعارف