29 مئی 2023 حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ اس دار فانی سے دار البقاء کی جانب روانہ ہوگئے اور اپنے پیچھے ہزاروں محبین و مخلصین کو سوگوار چھوڑ گئے ، ان کی وفات کی خبر پڑھتے ہی دل تھا کہ بے چین ہوگیا ، یقین کرنے کو تیار نہ تھا لیکن موت جیسی اٹل حقیقت جس سے انبیاء کرام علیھم السلام کو بھی فرار نہیں کو تسلیم کیئے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ، حافظ صاحب مرحوم ایک عظیم مفسر و محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب و شاعر کا مقام بھی رکھتے تھے ، ساری زندگی اشاعت دین کی راہ میں وقف کیے ہوئے تھے ، تدریس کا میدان ہو یا تصنیف کا ، میدان ہو وعظ و ارشاد کا یا دعوت و جہاد کا وہ تمام امور خیر کی انجام دہی کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے والے علم کا بحر بیکراں اور اعمال صالحہ کا نمونہ ایک عبقری شخصیت تھے ، سادگی ، عاجزی و انکساری حد درجہ کوٹ کوٹ کر بھری تھی ، کبر و حسد اور دیگر رذائل اخلاق سے پاک صاف وہ ایک عظیم مربی و مہرباں تھے ، ہم عصر کا احترام اور اصاغر پر شفقت ان کی صفات عالیہ کا ایک حیسن باب تھا ، تقوی و للہیت میں ان کا مقام بلند و بالا تھا ، فصاحت و بلاغت کمال تھی کہ کئی کئی صفحات کی بات چند جملوں میں یوں سمیٹ دیتے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہو ، انتہاء درجے کے مہمان نواز اور مجلسی آدمی تھے جو ان کی مجلس سے ایک دفعہ لطف اندوز ہوجاتا وہ ان کا مرید ہوجاتا ، سینکڑوں عربی ، اردو ، فارسی اور پنجابی اشعار ان کی نوک زباں پر رہتے تھے جن کو موقع بموقع مناسب محل میں ادا فرماتے تھے ، بات کرتے تھے تو محسوس ہوتا گویا لفظ نہیں لبوں سے موتی جھڑ رہے ہیں، وقت کی قدر دانی کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جا کر وقت ضائع کرنے سے بہتر خود ہی طبابت کا علم حاصل کرنا سمجھا اور علم طبابت بھی ذاتی مطالعہ کتب سے حاصل کیا اور بالآخر ایک مثالی طبیب بن گئے ، علمی مقام و مرتبے کا یہ عالم تھا کہ ان کے متعلق ان کے تلمیذ رشید شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن ضیاء صاحب حفظہ اللہ کا فرمانا ہے کہ ” وہ دور حاضر کے ابن حجر  تھے ”
شیخ ضیاء صاحب حفظہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ ” ہمارے استاد محترم بھٹوی صاحب رحمہ اللہ آیة من آیات اللہ تھے ” قرآن مجید کے ساتھ ان کا خصوصی تعلق تھا روازنہ بعد از نماز عصر ایک پارہ زبانی دہراتے آخر عمر میں تین پارے دہرایا کرتے تھے ہر دس دن بعد تکمیل قرآن کی خوشی میں تمام اہل خانہ کی دعوت کا اہتمام فرماتے اور اپنے فرزندان کو تلقین کرتے کہ ان کی یہ نیکی مخفی رکھی جائے ، قرآن مجید کا دور ان کا صرف حضر کا ہی نہیں بلکہ سفر کا بھی معمول تھا ، محترم جناب قاری یعقوب شیخ صاحب بتلاتے ہیں کہ ” وہ لگتے ہاتھوں سفر میں ایک پارہ زبانی سنا دیا کرتے تھے
مکرمی عمار سعیدی کا کہنا ہے کہ انہوں نے حافظ صاحب مرحوم کے ہمراہ ایک سفر کیا عمار کے کوئی عزیز بھی اس سفر میں ہمراہ تھے حافظ صاحب مرحوم نے ان کو مصحف کا ایک چھوٹا نسخہ نکال کر پکڑا دیا اور پارہ سنانا شروع ہوگئے سناتے سناتے نیند کا غلبہ ہوگیا ، آنکھ لگ گئی مگر تلاوت قرآن لبوں پر جاری رہی ” عمر بھٹوی حفظہ اللہ جو کہ حافظ صاحب مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں ان کا بتانا ہے کہ ” ابا جی ( شیخ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ ) حالت نیند میں بھی تلاوت قرآن جاری رکھتے تھے “” جب بھی کبھی ان کو وقت فرصت ملتا تلاوت قرآن میں مصروف ہوجاتے ، طلباء علوم دینیہ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے ان کے تلمیذ رشید محترم و مکرم مولانا حکیم مدثر محمد خاں حفظہ اللہ کا بیان ہے ” جامعة الدعوة الاسلامیہ مرید کے میں جب نئے سال کے آغاز پر داخلوں کا آغاز ہوتا تو طلباء کی کثیر تعداد جامعہ میں داخلہ لینے کے لیے پہنچ جاتی بسا اوقات ہاسٹل کی جگہ کم پڑ جاتی تھی مگر وہ کسی طالب علم کو داخلہ دینے سے انکار نہ فرماتے تھے بلکہ ان اضافی طلباء کیلئے کیمپ لگوا دیتے تھے ” ان کے ایک شاگرد سے معلوم ہوا کہ وہ فرمایا کرتے تھے ” اگر یہاں پر تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم علمی رسوخ حاصل نہیں کرسکتا ، کند ذہن ہے تو پھر کیا ہوا وہ نمازیں تو ادا کرتا ہے اگر ہماری وجہ سے کسی کو نمازیں ادا کرنے کی عادت ہوجاتی ہے تو ہمارا مقصد ہورا ہوجاتا ہے ” ۔

ان کے تلمیذ رشید عبدالقدوس فارسی کا بیان ہے کہ ” میں نے جامعہ میں درجہ رابعہ اور خامسہ میں حصول تعلیم کے دوران حافظ صاحب مرحوم سے دو مرتبہ صحیح البخاری کی جلد اول کا مکمل درس لے لیا تھا جب میرا رسمی طور پر حافظ صاحب مرحوم سے صحیح البخاری کا درس لینے کا وقت ایا تو میں نے ان سے عرض کی کہ میں اب کسی اور مدرسے جا کر بخاری پڑھنا چاہتا ہوں آپ سے تو دو مرتبہ پہلی جلد پڑھ چکا ہوں اب کی بار پھر پہلی جلد ہوگی لیکن اگر آپ دوسری جلد کی اس سال تدریس فرمائیں گے تو میں آپ سے ہی پڑھوں گا ، بس میرا یہ کہنا تھا کہ حافظ صاحب مرحوم نے میری یہ شرط منظور فرمالی اور گزشتہ سال صحیح البخاری کی دوسری جلد کی تدریس فرما دی ”

حافظ صاحب مرحوم ایک کثیر الجہات شخصیت تھے ، میں نے ان کی اولا زیارت سن 2019 میں مرکز الحسن لاہور میں زمانہ طالب علمی کے ایام میں کی تھی بعد ازاں جوں جوں شعور کی منازل طے کرتا گیا ان کا نام اور کام سنتا گیا بالاخر گزشتہ سال 4 اگست 2022 بروز جمعرات حافظ صاحب مرحوم کے ساتھ اولین مجلس کا موقع میسر آیا ، اس وقت وہ اسیر تھے ، میرے ساتھ رفیق سفر حافظ زیان صاحب تھے ، حافظ صاحب مرحوم کے کمرے میں ہمارے داخل ہوتے ہی وہ اپنی کرسی سے ہمیں اٹھ کر بغیل گیر ہوجاتے ہیں ابتدائی تعارف کے بعد ہمارے لیے کھانا منگوا لیتے ہیں ہمیں کھانا تناول کرنے کا حکم دے کر خود اپنا پارہ سنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں پارہ سنانے کے بعد حافظ صاحب مرحوم ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور گپ شپ کا دور شروع ہوتا ہے ، دوران گفتگو حافظ صاحب مرحوم کو زیان نے بتایا کہ ان کے جامعہ کے نصاب تعلیم سے ” بدایة المجتھد ” کو خارج کردیا گیا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور کتاب شامل نصاب کی گئی ہے جو کہ زمانہ قریب میں تصنیف کی گئی ہے یہ سننے کے بعد ” حافظ صاحب مرحوم نے مدارس کے نصاب تعلیم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آج کل مدارس کے نصاب سے مشکل کتب کو خارج کیا جارہا ہے جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ اب مدارس سے رسوخ فی العلم کے حاملین کی
کھیپ بالکل تیار نہیں ہورہی ”

حافظ صاحب مرحوم سے میں نے سوال کیا کہ کیا صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنھم کے اسماء کے ساتھ ( علیہ السلام ) کا بطور دعا استعمال درست ہے تو ازرہ مزاح فرمانے لگے ” ارے بھائی صاحب آپ بھی تو عبداللہ مرتضی علیہ السلام ہو پھر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ ایک خاص اصطلاح ہے جس کا انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اگرچہ لغوی اعتبار سے غیر نبی کیلئے بھی استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن اب یہ ایک خاص اصطلاح ہے اس کو خاص ہی رکھنا چاہئے اور ہاں اپنے نام کے ساتھ ” علیہ السلام ” لکھ نہ لینا فورا فتوی آجائے گا کہ عبداللہ مرتضی نے دعوائے نبوت کردیا ہے ۔

اگست کا مہینہ تھا تقسیم ہند کے مسئلے کو لے کر ابحاث عورج پر تھیں جب حافظ صاحب مرحوم سے اس بارے ہوچھا تو فرمانے لگے ” ارے بھائی وہ لوگ گزر گیے ہیں اب وہ ابحاث کرنے کا کیا فایدہ ہم اس وقت ہوتے تو معلوم نہیں کس طرف کھڑے ہوتے اگر اللہ نے ہمیں اس فتنے میں ملوث ہونے سے بچایا ہے تو اب بھی ہمیں اپنی زبانی بچا لینی چاہئیں ، اب تو تقسیم ہوگئی ہے اب ہمیں اپنے اس وطن کے ساتھ مخلص ہو کر چلنا چاہئے ، ان ابحاث کا کیا فائدہ ۔۔؟ ہر دو موقف رکھنے والے ہمارے بزرگ تھے ان پر نقد کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ”

زیان ان ایام میں صحیح البخاری کا درس لے رہے تھے انہوں نے حافظ صاحب مرحوم سے نصیحت کیلئے عرض کی تو فرمانے لگے :
” بیٹا جی ! آج کل مدارس کے طکباء کا عربی عبارت کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا ، نحو و صرف کو بالکل نہیں جانتے حتی کہ صحیح البخاری کا درس لے رہے ہوتے ہیں لیکن فعل فاعل کا نہیں پتا ہوتا اور کود رہے ہوتے ہیں دقیق فقہی ابحاث میں دوسروں کا رد کربے کا شوق ان کو چڑھا ہوتا ہے آپ کو چاہئے کہ اولا اپنی عبارت کی درستگی ہر توجہ دیں اگر وہ درست ہوجاتی ہے تو پھر احادیث کا فقہی حل تلاش کیا کریں ”

میں نے اپنے لیے نصیحت کی درخواست می تو فرمانے لگے ” ایک طالب علم کو چاہئے کہ وہ خوب مطالعہ کرے ، دل لگا کر پڑھے ، ایک کتاب ہڑھتے پڑھتے اکتا گیا ہے تو دوسری اٹھا کے دوسری سے اکتایا تیسری اٹھا کے حتی کہ ناول تک پڑھے ، مطالعہ انسان کی معاشرے میں عزت افزائی کا سبب ہے ، انسان کی بات وہ لوگ بھی پھر سنتے ہیں جو اس کو پاس بٹھانا بھی پسند نہیں کرتے ، انسان کو کتاب کے مطالعہ کے ساتھ ایک ربط  ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کے مطالعہ کربے سے اجتناب کرنا چاہیے ، انٹرنیٹ دو دھاری تلور ہے انسان مطالعہ کرنے بیٹھتا ہے اور دیگر امور کی جانب مشغول ہوجاتا ہے

حافظ صاحب مرحوم کی اس نصیحت کے ساتھ یہ پہلی ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی ، ہمیں رخصت کرتے وقت وہ ہمیں اپنی کرسی سے اٹھ کر بغل گیر ہو کر ملے اور ڈھیروں دعاوں کے ساتھ ہمیں رخصت فرمایا ۔۔

پہلی ملاقات سے قریبا دو ماہ بعد حافظ صاحب مرحوم کی دوبارہ زیارت کا موقع ملا رفیق سفر حافظ شہریار صاحب تھے ، بعض وجوہ کی بناء پر یہ ملاقات مصافحہ و معانقہ اور حافظ صاحب مرحوم کی دعائیں سمیٹے تک محدود رہی ۔۔

تیسری ملاقات کا سرف امسال ماہ رمضان المبارک میں 6 اپریل 2023 بروز جمعرات حافظ حسنین شکور بھائی کی رفاقت میں حاصل ہوا ، ان دنوں حافظ صاحب مرحوم کی طبیعت ناساز تھی ، ملاقات کرنے اور کسی بھی قسم کی مشغولیت سے ڈاکٹر حضرات نے سختی سے منع کیا ہوا تھا لیکن جب اپنی خواہش کا اظہار حافظ عمر بھٹوی حفظہ اللہ سے کیا تو انہوں نے وقت لے دیا ، میں اور حسنین بھائی بروز جمعرات بمطابق 6 اپریل 2023 وقت مقررہ پر مرکز طیبہ مرید کے موجود تھے بعد نماز عصر عمر بھائی ہمیں حافظ صاحب مرحوم کی خدمت میں لے گئے ہم حافظ صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے ہیں کہ وہ باوجود ناسازئ طبع کے ہمیں اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر ملے ، بیماری کے اثرات چہرے پر صاف دکھائی دیتے تھے ، جب ان سے عرض کی کہ اپ کا اس طرح سے ہمیں اپنی نشست سے اٹھ کر ملنا ہمیں شرمندہ کرتا ہے تو فرمانے لگے :
” آپ لوگ مبارک لوگ ہیں، علم شرعی کے حصول کی راہوں پر گامزن ہیں ، اگر آپ کا ہی اکرام نہیں کرنا تو اور کس کا کرنا ہے ”

ہمارے تعارف کے بعد ہم سے ہوچھتے ہیں آپ دونوں اکھٹے کیسے ہوئے بتایا کہ ہمارا علاقہ بھی ایک ہے اور ہم دونوں اس وقت لاہور میں استاد محترم مولانا یحیی عارفی حفظہ اللہ کے دورہ تفسیر القرآن الکریم میں شامل ہیں ، دورہ کا سنتے ہیں پوچھنے لگے کیا نہج تدریس ہے بتایا کہ منتختب آیات کی تفسیر ہے تو فرمانے لگے ” یہ اسلوب بہترین ہے ، مکمل قرآن مجید کا تو تفصیلا دورہ کروانا ممکن نہیں بس سرسری سا ہوجاتا ہے ، جب میرے ایام شباب تھے مجھے بھی دورہ تفسیر القرآن الکریم کروانے کا جذبہ تھا میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں اس رمضان میں دورہ بھی کرواوں گا اور تفسیر ابن کثیر کا مکمل مطالعہ کروں گا ، یہ دونوں کام تو کرلئے لیکن دوبارہ دورہ کرووانے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا جتنا یہ مشکل معاملہ ہے ، پھر فرمانے لگے ” کئی مدرسین ایک ایک آیت اور سورت کی کئی کئی دن اور ماہ تفسیر کرتے رہتے ، اس کے متعلق آیات روزانہ کچھ نہ کچھ ڈھونڈ کر بیان کرتے ہیں حالانکہ جتنے عرصے میں وہ یہ کام کرتے ہیں اتنے عرصے میں وہ مکمل قرآن کا مرور کروا سکتے ہیں مختصر فوائد کے ساتھ ، اخیر میں شعر سناتے ہیں

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

فرما رہے تھے ” بیٹا جی آپ بہت سعادت والے ہیں جو علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو عطاء فرماتا ہے جیسا کہ فرمایا ” ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا۔۔۔۔۔۔الخ ” ، یہ انبیاء کرام علیھم السلام کی وراثت ہے کی عام سی شے نہیں اس کی قدر کرنا لوگ سکولوں یونیورسٹیوں کی جانب چلے جاتے ہیں اچھے خاصے مولوی بھی دنیا سے مرعوب ہوجاتے ہیں مگر سکون اور عزت صرف شرعی میں ہی ہے ، جو دنیا میں پڑ جاتا ہے اس میں حق و باطل کی تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی وہ جھوٹ ، دھوکہ اور فراڈ بھی کرتا ہے لہذا اس علم سے جڑے رہنا ۔۔

مزید فرمایا ” اللہ تعالی نے حیاة طیبہ کا وعدہ کررکھا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو عمل صالح اختیار کرتے ہیں فرمایا ” و من یعمل من الصالحات من ذکر او انثی فلنحیینہ حیاة طیبة ” لہذا علم کے ساتھ عمل کو لازمی پکڑنا ”

حافظ صاحب مرحوم کی طبیعت ناساز تھی لہذا اس مختصر سے وقت میں ان کے قیمتی پند و نصائح سے مستفید ہونے کے بعد ان سے اجازت چاہی اور ان کی دعائیں لیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو لئے ، یہ میری ان کے ساتھ آخری مجلس تھی، وہ تو چلے گئے ہیں لیکن اپنی یادیں چھوڑ گئے ہیں۔۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی حافظ صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے اور ان کے ہزاروں تلامذہ و مستفیدین خصوصا ان کی اولاد کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔۔
آمین۔۔۔

 عبداللہ مرتضی السلفی
متعلم جامعہ سلفیہ فیصل آباد