برزگ عالم دین سرپرست مرکزی جمعیت اہل حدیث تحصیل پیرمحل محترم جناب حافظ محمد شبیر رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
1986.87 کی بات ہوگی جب بندہ ناچیز جامعہ صدیقیہ رجانہ حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ تعالیٰ کے مرکز میں قرآن مجید حفظ کررہا تھا ایک دن جامعہ میں جلسے کا اس دور کے مطابق سادہ سا اشتہار دیکھا جس میں بمقام چک نمبر 308 گ ب پیرمحل چٹیانہ روڈ لکھا تھا اور مین مقرر تھے خطیب پاکستان حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ تعالیٰ.
اشتہار دیکھتے ہی کانفرنس میں جانے کے لیے دل مچلنے لگا بسیار کوشش کےبعد مقررہ تاریخ کو رجانہ سے محترم جناب حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عصر سے قبل رجانہ چوک سے نیاز بس پر سوار ہوئے اور پیرمحل اڈے میں آکر اتر گئے۔
یہ پیرمحل کی پہلی زیارت تھی جوکہ ہم نے کی پیرمحل اڈے سے حضرت حافظ صاحب نے ایک تانگے والے سے بات کی اس نے ہماری طرف دیکھا اور طلبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہو گیا حافظ صاحب نے اس بتایا یہ سب طلبہ ہیں آپکے لیے آجر وثواب کا باعث ہونگےآخر کار ہم تانگے پر سوار ہوئے معزز اساتذہ اکرام تانگے کی سیٹوں پر براجمان ہوئے اور ہم سب طلبہ جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔
تاہم نماز مغرب سے قبل ہم 308 گ ب میں پہنچ چکے تھے۔
پہلی دفعہ اس گاؤں کو دیکھا کیا معلوم تھا کہ پھرساری زندگی یہاں گزرےگی۔
میری ڈیوٹی حافظ محمد شبیر رحمہ اللہ تعالیٰ کے گھر علماء اکرام کوکھانا کھلانے کی لگی میں اس خدمت پر مامور تھا کہ نماز عشاء کے بعد ایک گاڑی مسجد کے بازار میں داخل ہوئی گاڑی کی آواز اور روشنی دیکھ کر میں بھی جلدی جلدی باہر آگیا۔
گاڑی روکی تو ایک روشن خوبصورت چہرہ سر پر شاندار پگڑی والے بزرگ باہر تشریف لائے ساتھ ہی فضا میں آواز گونجی
نعرہ تکبیر۔ خطیب پاکستان مولانا محمد حسین شیخوپوری
نعرہ لگانے والے نوجوان اسی مسجد کے خطیب وامام محترم جناب حافظ محمد شبیر رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔
یہ انکی زیارت کا پہلا موقع تھا
اللہ تعالیٰ نے انکو زوردار آواز سے نوازا تھا یہ آواز جب بھی بلند ہوئی دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے بلند ہوئی۔
پھر چند سال کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ حضرت حافظ صاحب پیرمحل کی مرکزی مسجد میں بطور خطیب وامام تعینات ہو گئے یہ تقریباً 1989.90 کی بات ہوگی اس سال
رمضان المبارک آیا تو حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مرکزی مسجد پیرمحل میں نماز تراویح کے لیے حافظ محمد شبیر صاحب کے پاس بھیج دیا دوسال تک میں نے نماز تراویح میں یہاں قرآن مجید سنایا اور حضرت حافظ صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ مجھ سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے میری تمام ضروریات کا خیال رکھتے میں نے انکو انتہائی متقی پرہیز گار اور دین کے معاملے میں باعمل پایا۔
پھر 1997 میں باپ جیسے بڑے بھائی محترم جناب قاری عبد الغفار سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ جوکہ حضرت حافظ صاحب کے بعد 308 گ ب میں بطور خطیب وامام مقرر تھے اچانک اپنے رب سے جاملے تو مجھے اہل نا ہونے کے باوجود یہ زمہ داری اٹھانا پڑی پھر
جب بھی پیرمحل میں جانا ہوتا حضرت حافظ صاحب سے ملاقات ہوتی انتہائی محبت کا اظہار فرماتے گاؤں کے لوگوں کے بارے میں پوچھتے کوئی غمی خوشی ہوتی یا کوئی جامعہ میں دینی پروگرام ہوتا تو ضرور تشریف لاتے ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے اور انتہائی شفقت کا اظہار فرماتے۔
اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت دین کا کام لیا اور تقریباً 68 سال کی عمر میں بھی صحت مند تھے اور دین کی خدمت کے لیے ہم سے بھی زیادہ کوشاں رہتے تھے شروع سے لیکر آخری دم تک مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے ہر اجلاس میں شرکت فرماتے اور تنظیمی لحاظ سے اچھے مشوروں سے نوازتے اپنی اولاد کی بھی نیک تربیت فرمائی جس کی جھلک انکی اولاد میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔
آخری چند ماہ بیمار رہے لیکن اس کے باوجود حوصلے بلند تھے کبھی زبان پر شکوہ نہیں لائے مسجد میں باجماعت نماز میں حاضر ہوتے رہے
آخری چند ماہ میں مسجد ملاقات ہوتی تو کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے لیکن جیسے ہی مجھے دیکھتے تو کھڑے ہو کر بغل گیر ہوتے میں اصرار کرتا کہ آپ تشریف رکھیں تو فرماتے دووجہ سے تم ہمارے لیے قابلِ تکریم ہوایک تو تم قاری عبد الغفار سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بھائی ہو اور درسری وجہ یہ ہے کہ تم دینی ادارہ چلارہے ہو جہاں سینکڑوں طلبہ قرآن وحدیث سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
یہ انکی دین کے ساتھ محبت تھی انہوں نے جو اپنی اولاد کے لیے وصیت لکھی وہ بھی قابل تحسین ہے کوئی دنیاوی بات نہیں لکھی دین کے اوپر گامزن رہنے کی تاکید فرمائی۔
ہم اور ان میں ایک یہ چیز بھی مشترک تھی کہ وہ بھی حضرت حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ کی محبین میں سے تھے اؤر ہم بھی انکے محبین میں شامل تھے وہ بھی جامعہ صدیقیہ کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے اور ہم بھی اس کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے بارہا مرتبہ ان سے زمانہ طالب علمی میں رجانہ میں ملاقاتیں ہوتی رہیں وہ حضرت حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ تعالیٰ اور انکے تمام گھرانے کا بے حد احترام کرتے تھے۔
آپکی پہلی نماز جنازہ مرکزی جنازہ گاہ پیرمحل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ محمد امین صاحب حفظہ اللہ نے رقت آمیز دعاؤں کے ساتھ پڑھائی۔
دوسری نماز جنازہ آپ کے آبائی گاؤں 722 گ ب میں محترم جناب حافظ محمد عالم گیر ناظم مرکزیہ تحصیل کمالیہ نے پڑھائی وہیں پر اللہ کے عظیم ولی کو سپرد خدا کیا گیا اور قبر پر دعا امیر محترم جناب حافظ عبد اللطیف صاحب نے پرخلوص انداز میں کروائی۔
نماز جنازہ میں پیرمحل اورگرد و نواح کے چکوک سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت فرمائی اور اسی طرح قائدین جماعت نے بھی بھرپور طریقے سے شرکت فرمائی۔
جن میں خصوصی طور پر محترم علامہ برق توحیدی صاحب محترم جناب حافظ عبد الستار صاحب محترم جناب حافظ محمد عبداللہ افضل صاحب حافظ محمد عالم گیر صاحب قاری محمد افتخار صاحب قاری محمد حنیف عزیزی صاحب جناب افتخار احمد ظہیر صاحب قاری محمد امجد صاحب جناب طلحہ زوارصاحب قاری محمد اکرام صاحب مولانا محمد امین صاحب قاری محمد عباس محمدی صاحب حافظ محمد جمشید صاحب مولانا عبد الجبار صاحب حافظ محمد قاسم خلیل صاحب جناب ریاض ساغر صاحب حاجی رضوان سرور صاحب حضرت حافظ محمد مختار صاحب محترم شہباز مدنی صاحب مولانا محمد طارق جمیل صاحب قاری محمد یحیی محمدی صاحب مولانا محمد سعید صاحب قاری عبد السلام صاحب حافظ محمد بشارت علی صاحب جنرل سیکرٹری اہلحدیث یوتھ فورس ضلع ٹوبہ حافظ عبد اللطیف صاحب قاری مزمل اقبال صاحب اور اور دیگر قائدین شریک ہوئے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے قائدین نے بذریعہ ٹیلیفون تعزیت فرمائی جن میں
محترم جناب علامہ عبد الرشید حجازی صاحب ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان محترم جناب مولانا محمد یونس آزاد صاحب محترم جناب محمد ابرار ظہیر صاحب چیف ایڈیٹر ہفت روزہ اہل حدیث شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور حضرت حافظ محمد شبیر رحمہ اللہ تعالیٰ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
منجانب:
حافظ عبد الرزاق سلفی ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث تحصیل پیرمحل