بعض شخصیات اپنی قومی، ملی اور دینی خدمات کے باوجود اپنے سخت گیر رویے، عدمِ مفاہمت پہ مبنی حکمتِ عملی، مخالفین کے مسلسل طعن و تشنیع اور تاریخی مرچ مصالحوں کی بدولت اس قدر متنازع ہو جاتی ہیں کہ ان کی زندگی کے مثبت پہلو نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ ان پرتاریخی گرد کی اتنی تہیں جم جاتیں ہیں کہ عوامی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف پسند مؤرخین ان کی حمایت کرنے کے لیے اسانید کی آڑ لیتے ہوئے درست اور نادرست دونوں طرح کی روایات جمع کر دیتے ہیں تا کہ حالات سازگار ہونے پر کوئی کھرے کھوٹے کی تمیز کرنے والا ان روایات کا تنقیدی جائزہ لے اور صحیح و غلط کی نشاندہی کر سکے۔
ایسی ہی تاریخی شخصیات میں سے ایک شخصیت حجاج بن یوسف ہے جس کی زندگی میں اس کے خلاف کچھ کہتے ہوئے زبان کانپتی تھی تو آج اس کے حق میں لکھتے ہوئے قلم لرزتا ہے.عرب کے مؤرخ ڈاکٹر محمود زیارۃ نے ڈاکٹریٹ کی سند کے حصول کے لیے جامعہ ازہر قاہرہ میں ” الحجاج بن يوسف المفتری علیہ” کے عنوان سے مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے حجاج کی شخصیت کا تحقیقی، تنقیدی اور تطبیقی جائزہ لیا ہے۔
مؤلف کا رجحان اس طرف نظر آتا ہے کہ ثقفی قبیلے کے اس سپوت سے مؤرخین نے انصاف نہیں کیا اور اس کی قومی و ملی خدمات اور دینی غیرت کو پسِ پشت ڈال کر محض کوتاہیوں کو اجاگر کیا ہے۔
مؤلف نے تنقیدی جائزہ لے کر قارئین کے سامنے ایک راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے جس پر چل کر ابن یوسف کے بارے میں جس طرح کی چاہیں غیر متعصبانہ رائے قائم کریں۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں ” بہر کیف حجاج آسمان سے اترا کوئی فرشتہ نہیں تھا. وہ بھی انسان ہی تھا جس سے غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں اور جو صحیح فیصلے بھی کرتا تھا. منصفانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ جس طرح کسی آدمی کی غلطیاں بیان کی جائیں اسی طرح اس کی درستیاں اور اس کے صحیح فیصلے بھی بیان کیے جائیں ۔”
فصیح عربی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کو اردو قالب میں مستند ترجمہ نگار اور ماہرِ ترجمانی محترم جناب عزیزِ مکرم حافظ قمر حسن صاحب نے ڈھالا ہے جو نہ صرف اردو ادب پہ دسترس رکھتے ہیں بلکہ محاورے کی زبان استعمال کرنے میں بھی  مہارتِ تامہ کے مالک ہیں۔
عربی کی بیس سے زائد کتب ان کی قلمی مزدوری کے باعث طباعت کے مراحل سے گزر کر شائقین سے داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔
فاضل مترجم نے اس اہم کتاب کو اردو کے سانچے میں ڈھالتے وقت کوشش کی ہے کہ مصنف کا مدعا ہوبہو قارئین تک پہنچ جائے۔
اصل کتاب چونکہ سامنے نہیں ہے اس لیے عربی اور ترجمے میں موازنہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ مگر فقیر چونکہ ان کی ترجمہ کردہ کتب اور مضامین کا مستقبل قاری ہے اس لیے قوی امید ہے کہ ترجمے کرتے وقت تہذیب و شائستگی اور نفاست کا پہلو کہیں نظر انداز نہیں کیا گیا ہوگا اور خشک ترجمے کی بجائے دلآویز ترجمانی کی مقدور بھر کوشش کی ہوگی۔
ناسپاسی ہوگی اگر ناشر محترم محمد فہد حارث صاحب کا ذکر نہ کیا جائے جنہوں نے نہ صرف حجاج کے متعلق مقالات تحریر کیے بلکہ ان نگارشات کو ایک مستقل کتاب کا روپ دیا بلکہ اس کتاب پر بھی نظرِ ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ حواشی کا اضافہ بھی کیا۔ جزاہ اللہ.
نیز طباعت معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب کا سروق بھی قابلِ دید ہے جس میں حجاج کے نام پر خون کے چھینٹے بکھیر کر اس عہد کے حالات و واقعات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔

 

 حافظ عبد العزيز آزاد