سوال

ایک مریض نشے کے علاج کے سلسلے میں ہسپتال داخل تھا، اس دوران اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔وہ کہتا ہے مجھے اتنا پتہ ہے کہ میں نے طلاق دی ہے، اور یہ تیسرا موقعہ ہے ۔بندہ بیمار بھی ہے اور نشہ بھی سخت کرتا ہے۔ اسکی طلاق کا کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • ارشادِ باری تعالی ہے: ’شیطان شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت و نفرت کو پروان چڑھانا چاہتا ہے‘۔ [المائدة:91]

بعض روایات میں آیا ہے   کہ شراب ’ام الخبائث‘ یعنی تمام خباثتوں کی ماں اور برائیوں کی جڑ ہے، اس ایک گندگی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان مسلسل مصیبتوں اور برائیوں میں پھنستا جاتاہے۔ [المعجم الأوسط للطبراني:3158،  وضعفه الهيثمي في الزوائد:8172]

مزید یہ کہ شراب نوشی حرام ، اور قابلِ تعزیر جرم ہے۔ شراب پینے والا ایمان سے محروم  ہوجاتا ہے (بخاری:6772)، بلکہ شریعت میں شراب پینے پلانے والے، اس کو تیار کرنے والے، اس کو سپلائی کرنے والے، تمام لوگوں کو ملعون و مردود قرار دیا گیا ہے۔ (ترمذی:1295)

اس لیے ہم سائل سے گزارش کرتے ہیں کہ  اس گناہ کبیرہ سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے، اس لت سے جان چھڑانے کے لیے فوری عملی اقدام کریں۔ ورنہ یہ  انسان کے لیے ہر اعتبار سے تباہی ہی تباہی ہے۔

  • جہاں تک سوال کا تعلق ہے، تو شراب پینے اور نشہ کرنے والے انسان کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ نشہ اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ  وہ عقل و شعور سے عاری  اور حواس کھو بیٹھتا ہے ۔ ایسے انسان کی دی گئی  طلاق واقع نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں ہے:

[ياَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ][النساء: 43]

نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ تمہیں اپنا کہا، سمجھ آنا شروع ہوجائے۔

اس آیت سے اہلِ علم نے استدلال کیا ہے کہ نشے کی حالت میں انسان کو خود اپنے کہے کا بھی علم نہیں ہوتا، لہذا اس کی طرف سے ادا کردہ عبادات یا معاملات قابلِ قبول نہیں ہوتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان   ذی شان بھی ہے:

لا طلاق في إغلاق. (سنن ابي داود:2193، سنن ابن ماجہ:2046،  وحسنه الألباني في الإرواء:2047)

جب انسان کے ہوش وحواس قائم نہ ہوں، تو طلاق نہیں ہوتی۔

صحابہ کرام میں سے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  بھی صراحت کے ساتھ فتوی موجود ہے کہ نشے، جنون  وغیرہ کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔ [بخاری 7/42]

 لیکن  بعض دفعہ  نشے کے باوجود انسان اپنے تصرفات و افعال سے واقف ہوتا ہے۔ اور اس کا عقل و شعور موجود ہوتا ہے،  جیسا کہ مسؤلہ صورتِ حال ہے۔ کیونکہ طلاق دینے والا کہتا ہے کہ جب میں نے طلاق دی تو مجھے اتنا ہوش تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔اس کا مطلب یہ ہے ،کہ اس نے ہوش و حواس میں طلاق دی، اور اس کے علم میں تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے۔ دیگر قرائن سے بھی بات سمجھ آتی ہے کہ سائل کی نشہ کی حالت اس قدر خطرناک نہیں تھی کہ اسے  ہوش و حواس ہی نہ ہو۔

لہذا یہ طلاق نافذ ہوگئی ہے۔ اور چونکہ یہ طلاق كا تیسرا موقعہ ہے، لہذا رجوع اور نکاح دونوں اختیار ختم ہوگئے ہیں۔  جیسا کہ قرآن كريم میں  اللہ تعالیٰ  کا فرمان ہے:

“فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَه”. [سورةالبقرہ:230]

’پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے ،تو اب اس کے لئے حلال نہیں، جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے،۔

یعنی  کسی اور سے نکاح غیر مشروط ہو۔ لیکن وہ  دوسرا خاوند فوت ہو جائے ، یا خود بخود طلاق دے  دے، تو پھر پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ