حالِ دل
(ہفتے میں تین چھٹیاں)
یادش بخیر!
ع: اہلِ صنم اوجِ ثریا سے جا ملے
جی ہاں خوانندگان محترم امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ کی 141 کمپنیوں میں تجرباتی طور پر ہفتے میں تین چھٹیاں دے کر تجربہ کیا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ چھٹیاں کرنے والے حضرات کا کام، جسمانی اور ذہنی صحت ہفتے میں دو چھٹیاں کرنے والوں سے کہیں بہتر ہے نیز وہ ورک پلیس کو بھی زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں…اللہ ہو اللہ…ہمارے ہاں جائز چھٹیاں بھی افسران بالا کے لیے سوہانِ روح ہیں…کام مکمل کیوں نہ ہو جائے دفتری اوقات کے اختتام سے پہلے آپ گھر نہیں جا سکتے…ہم تو کسی نہ کسی طرح ملازمین کے لئے ہوم ورک بھی تراش لیتے ہیں تاکہ ملازم کہیں گھر جا کر سکون کا سانس نہ لے لے…اس پہ مستزاد اس ارشاد کے کیا کہنے کہ “ہم بھی تو سولہ سولہ گھنٹے کام کرتے ہیں” ظلِ سبحانی آپ مفت میں سولہ گھنٹے کام نہیں کرتے بلکہ اس کے عوض آپ کو نام، مقام اور بے پناہ مراعات حاصل ہیں…اور بیچارہ ملازم آپ کی تھپکی کا سزاوار یا پھر زیادہ سے زیادہ کسی مجلس میں تعریفی کلمات سن کر سینہ چوڑا کرکے ساتھ والوں کو جلانے کی ناکام کوشش کرتا، ناحق شیخی بگھارتا، من ہی من میں خود کو نجات دہندہ تصور کرتا اور خود کو خواہمخواہ ہی محسن ملت تصور کرتا ہے…
خوانندگان محترم! ممکن ہے یہ بات آپ کے مزاجِ گرامی پہ گراں گزرے اور یہ جملے پڑھ کر آپ چینِ جبیں سے غمِ پنہاں کا اظہار کریں مگر تجربات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان ذہبی اعتبار سے جس قدر پر سکون، فکری لحاظ سے جس قدر مطمئن اور مالی طور پر جتنا آسودہ ہو گا اس کے کام اسی قدر کمالیت ہوگی. گویا بقول غالب:
پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
آہ فآہ ثم آہ…یالیت قومي يعلمون…اے کاش کوئی اس صدا پہ کان دھرے… اہل اور ایمان دار ملازمین کے لئے ایک لائحہ عمل طے کرتے ہوئے ایک مقررہ وقت میں ان کے اہداف مقرر کرے اور ان اہداف کی تکمیل کا بذریعہ محاسبہ و معاقبہ مطالبہ کرتے ہوئے جزا و سزا کا نظام وضع کرے…مگر کون کرے اور کیوں کرے؟؟؟
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
نثر نگار: عبد العزيز آزاد