ہم اہلِ محبت ہیں، فنا ہو نہیں سکتے
پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمان مکی رحمہ اللہ پر لکھا گیا کالم.
” ڈاکٹر ہمدانی! لینے والے آ گئے ہیں اور تم گواہ رہنا، اشھد ان لا الہ الا اللہ “۔۔۔اور جسم سے روح پرواز کر گئی۔
ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والوں کی یہی ایمان آفریں ادائیں ہی تو ہوتی ہیں جو انھیں کسی پَل، کسی لمحے اپنے چاہنے والوں کے دل سے محو نہیں ہونے دیتیں۔ زندگی کے مدھم زاویوں کو اجال دینے والے شخص، تاریکیوں میں بھٹکتے لاکھوں قلوب و اذہان کو روشنی کی دودھیا کرنوں سے نکھار دینے والے شگفتہ مزاج انسان، بے اعتبار موسموں میں بھی انتہائی وقار اور طنطنے کے ساتھ پیار و محبت کی فصل کاشت کرتے ہیں اور ایسا کرنے والے لوگ ہی زندگی کی اصل متاع اور سرمایہ ہوتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے والا بطلِ حریت، غزہ اور فلسطین کے لیے بصیرت افروز اور ٹھوس موقف رکھنے والے سپوت نے اپنے معالج ڈاکٹر ہمدانی کو گواہ بنا کر کلمہ پڑھا اور ابدی نیند سو گیا۔
سارا کارواں ہی غم و اندوہ کے گرداب میں غرق تھا۔ قافلے والے جس غم میں سلگ رہے تھے، اس کا ادراک ہی محال ہے، لاریب قافلوں پر آزمایشیں آتی رہتی ہیں۔ قدغنیں بھی لگا کرتی ہیں، ان کو زنجیر بپا اور پابندِ سلاسل بھی کیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو عظیم منزلوں کے مسافروں کا سالار دنیا بھی چھوڑ جاتا، ان تمام تر صعوبتوں، اذیتوں اور کلفتوں میں حق کے راہیوں کو مبتلا ہونا پڑتا ہے۔ یہی تو کٹھن اور دشوار مرحلہ ہوتا ہے کہ سالار رخصت بھی ہو جائیں تب بھی حق و صداقت کے قافلے نہیں رکا کرتے۔ وہ قید و بند کی صعوبتیں میں ہوں یا دو قومی نظریے کی روح کو تازہ کرنے جرم میں زیرِ عتاب، وہ دفاع پاکستان کے لیے ایک توانا اور ٹھوس کردار کے صلے میں ملنے والی اذیتوں کے شکار ہوں یا تکفیری فتنوں کی سرکوبی کے عوض، ملنے والی تکالیف میں مبتلا، وہ اذیتوں میں ڈھلے ہر لمحے کو برداشت کر کے کھیون ہاروں کو دنگ اور عالمی امن کے ٹھیکے داروں کو ششدر کر دیا کرتے ہیں۔ یہ سب کر گزرنا کوئی اتنا سہل تو نہیں ہوا کرتا مگر اس شخص نے اپنی شدید بیماری کے باوجود تمام مصائب و آلام کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ قافلے کو کبھی بھٹکنے تک نہ دیا۔ اس نے اپنے آخری سفر کی حدتوں اور شدتوں کو بھی اپنے ایمان و ایقان کے ساتھ ایسی حلاوتوں میں تبدیل کیا کہ سننے والوں کے آنسو تھم ہی نہیں پاتے۔
سیاست، تاریخ، جغرافیہ، ثقافت، تہذیب، معیشت، مذاہبِ عالم، دفاع اور امورِ خارجہ، ہر موضوع پر ٹھوس اسلامی موقف پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی تھا ہی نہیں۔نفاست، ان کی گفتگو کی ایک ایسی منفرد خصوصیت تھی، جو ان کو باقی تمام علما اور خطبا سے ممتاز، ممیز اور منفرد مقام عطا کرتی تھی۔ فصیح و بلیغ لفظوں کی روانی یوں کہ گویا اردو، انگریزی اور عربی ادب کے سارے الفاظ ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں اور وہ بڑی آہنگ، ترتیب اور غنائیت کے ساتھ ان کے لبوں سے برآمد ہونے کے لیے بے تاب ہوں۔
ایسی بیماری اور نقاہت میں کہ جب موت سَر پر کھڑی ہو تو انسان کے تخیل اور گمان کدے میں ہسپتال سے نکلنے کا رتی بھر خیال نہیں آتا، اس کے تو اعصاب چٹخنے لگتے ہیں، اس کے ہواس مختل ہی نہیں، مقفل ہو چکے ہوتے ہیں مگر اپنے محبوب کی محبت کی سطح مرتفع پر موجود یہ شخص، اس کٹھن وقت میں بھی اپنے محبوب سے غافل نہیں تھا۔ مَیں اپنے سیکڑوں دل عبد الرحمان مکی پر وار دوں کہ جو اپنے محبوب و مرغوب سے ملاقات کے لیے مضطرب اور بے کل تھا۔ ایک ایسے ”موتیے کے پھول“ سے ملاقات کا خواہاں تھا کہ جو آج بھی کروڑوں لوگوں کی دلوں کی دھڑکن ہے۔ ہسپتال کا عملہ بھی ششدر تھا یہ مریض اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ایک چاند سے مُکھڑے کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہے، وہی گلاب چہرہ جو کروڑوں لوگوں کے دلوں میں آج بھی خوشبو بن کر مہک رہا ہے، اس شمع کی لَو کی تمازت آج بھی لاکھوں دلوں کو حرارت اور جِلا بخشتی ہے۔ افتخار شفیع نے کیا ہی عمدہ بات کہی ہے:-
سنا ہے ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ دنیا میں
کہ جن سے ملیے تو تنہائی ختم ہوتی ہے
۔اسلوبِ محبت کا یہ ایمانی حلاوت سے مزین اور مرتب رنگ، ڈھنگ اور آہنگ تو شاید ہی چشمِ فلک نے اس سے قبل دیکھا ہو کہ موت کی بانہوں میں موجود ایک شخص کی گاڑی کا رخ ہسپتال سے نکل کر دیارِ یار کی طرف تھا۔ وہ ” وقت رخصت “ کو بھی ایمان کے دل آویز زاویے میں ڈھال گیا، اپنے آخری لمحات کو دوستی اور وفاداری کی ایک ایسی لذت اور حیات بخش گیا کہ جس کی تابندگی قلوب و اذہان کو جگمگاتی رہے گی۔ جس کی تمازت دلوں کو ہمیشہ گھایل کرتی رہے گی۔ مکی صاحب بول رہے تھے کہ
” مَیں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں، زندگی بھر بھائی بندی اور اطاعت گزاری میں کوئی کمی کوتاہی ہو گئی ہو تو خدارا معاف کر دینا “ یہ الفاظ سننے والوں کی آنکھیں کس طرح اشکوں کا بوجھ سہار پائی ہوں؟ سننے والوں کے کلیجے کٹ نہ گئے ہوں گے؟ منظر بھوپالی کہتا ہے:-
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی
محبوب سامنے کھڑا تھا۔ محب سراپا معافی کا خواستگار تھا کہ اگر کوئی خطا ہو گئی ہو تو معاف فرما دیں۔ محبوب دلاسہ دے رہا تھا کہ ابھی بہت زندگی پڑی ہے، ابھی بہت کام کرنا ہے۔ جواب آیا کہ “ وقت بہت کم رہ گیا ہے“ بے ساختہ زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ ”وہ آ گئے“ سَر ایک جانب رکھا اور ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گیا۔ احمد فراز نے سچ کہا ہے کہ:
ہُوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تُو نہیں تھا، ترے ساتھ ایک دنیا تھی
یخ بستہ دسمبر کی برسات بھری رات کے پہلے پہر علما کی سسکیاں تھیں، طلبہ کی آہوں سے ماحول اداس تھا، لاکھوں آنکھوں سے آنسو برس رہے تھے۔ ٹکڑوں میں بٹی یادیں ہر دل میں کسک اور چبھن پیدا کر رہی تھیں۔ ان کی یادوں کے جلو میں ایک ہجومِ بے کراں غم و آلام کی چوکھٹ پر کھڑا اشک بار تھا۔ بہاول پور میں 1948 ء میں پیدا ہونے والے عبدالرحمان مکی کی وفات پر آنکھیں اشکوں سے لدی تھیں۔ 80 کی دہائی میں اسلام آباد میں اسلامی یونی ورسٹی میں معلم کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک جی دار شخص کی لحد پر لوگ آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے۔ مکہ کی جامعہ القرا یونی ورسٹی سے اسلامی سیاست کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ایک جید علم دین کے جنازے کا ایک ایک منظر آنسوؤں میں ڈوبا تھا۔ اسد بھوپالی
اے موج حوادث تجھے معلوم نہیں کیا
ہم اہلِ محبت ہیں، فنا ہو نہیں سکتے
اب محبتوں کا تقاضا یہ ہے کہ جس ” شخص “ کی محبت میں عبد الرحمان مکی اپنی موت کی تلخیوں کو بھلا کر، ان سے ملنے اور خطاؤں کی معافی مانگنے چلا آیا، اب ان دونوں کی محبتوں اور نصیحتوں کو حرزِ جاں بنا لیا جائے۔۔۔ حقیقی محبت تو یہی ہوتی ہے نا!۔۔۔سنو! محبتوں کا اصل شعار، سلیقہ، قرینہ اور طریقہ تو یہی ہوتا ہے بس!
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ)