ان الحمدللہ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد!
فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ہمزہ و نفخہ و نفثہ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
قال اللہ تبارک وتعالی فی القرآن المجید و الفرقان الحمید :
” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضا او علی سفر فعدة من ايام اخر یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر ۔۔۔۔۔۔۔الخ ( سورة البقرہ آیت 185 ).
ترجمہ : پس تم میں سے جو شخص اس ماہ کے اندر موجود ہو اس کو چاہئے کہ وہ روزے رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو جتنے روزے رہ جائیں تو وہ رمضان کے بعد باقی دنوں میں اپنی گنتی پوری کرلے اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ رکھتا ہے مشکل کا نہیں تاکہ تم روزوں کی گنتی بھی پوری کرلو اور اللہ نے جو تمہیں ہدایت دی تم نے رمضان کا مہینہ پایا روزے رکھے اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ ۔
اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے ہم سب بہن بھائیوں کو یہ ماہ مبارک نصیب فرمایا اور آج اس مہینے کا آخری جمعہ ہے۔۔
ہمیں چاہیے کہ تھوڑے سے وقت میں اپنا مختصر سا جائزہ لے لیں کہ ” ہم نے اس ماہ مبارک میں کیا حاصل کیا ” ؟
رمضان المبارک کے ہم کتنے روزے رکھ سکے ؟ اور کہیں روزوں میں ہم سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی ؟ رمضان المبارک میں قرآن مجید سے ہم نے کتنا سبق سیکھا ؟ کتنی دفعہ مکمل قرآن پاک کی تلاوت ختم کی ؟ ہم نے قرآن مجید کی کتنی آیات سمجھ کر پڑھیں ؟ اس بات پر غور کرنے کی بہت ضرورت ہے ! ایک خطبے میں میں نے ذکر کیا تھا کہ ” قرآن مجید کا رمضان المبارک کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسکا نزول اسی ماہ مبارک میں ہوا لہذا جس طرح رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ گہرا تعلق ہے ہمیں بھی اس ماہ میں قرآن مجید کے ساتھ اتنا ہی گہرا تعلق بنانا چاہیے”
ہماری زندگیاں گزر جاتی ہیں لیکن ہم اس بابرکت کتاب سے بے خبر رہتے ہیں مگر اسکے برعکس ہم باقی دنیا کی کتابوں کو بہت وقت دیتے ہیں جس کا جو ذوق ہے وہ وہی فن پڑھتا نظر آتا ہے مگر بہت ہی کم لوگ ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس کتاب کو وقت دیتے ہیں ۔۔۔۔
جنکا دل اس کتاب کے ساتھ لگ جاتا ہے وہ دنیا و آخرت میں سکون پاتے ہیں ۔۔۔۔
میں خود کئی ایسے بزرگوں کو جانتا ہوں جو ستر ستر اسی اسی سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں مگر رات کو تہجد کے قیام میں دو دو تین تین سپارے تلاوت کرجاتے ہیں ۔۔۔
ہمارے گجرانوالہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ انکی عادت تھی کہ وہ رات کو مسجد میں آکر دو تین سپارے قیام میں تلاوت کرتے تھے اور کئ بزرگ نمازی بھی قرآن مجید کی تلاوت سننے کیلئے انکے پیچھے کھڑے ہو جاتے تھے۔۔۔
اسی طرح آپ ہمارے اسلاف میں سے ( صحابہ کرام ، تابعین عظام، فقہاء، محدثین ) جس کسی کی بھی سیرت اٹھا کر دیکھ لیں انکی زندگی میں سرفہرست قرآن کریم کا نام آۓ گا ۔
ابتداء سے قرآن یاد کرتے ہیں پھر باقی علوم کی طرف آتے ہیں وہ سیکھنے کے بعد پھر ساری ساری زندگی قرآن کریم کی خدمت میں گزار دیتے ہیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ : روزہ اور قرآن اس بندے کی سفارش کریں گے جو روزہ دار ہوگا اور قرآن پڑھتا ہوگا ۔ روزہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہے گا ” اے اللہ اس بندے نے روزہ رکھا اور میں نے سارا دن اسکو نفسانی خواہشات سے روکے رکھا تو میری سفارش اسکے حق میں قبول کرلے ” قرآن اللہ سے کہے گا ” اے اللہ میں نے اسکو جگایا اور یہ نماز تہجد میں میری تلاوت کرتا رہا تو اسکو معاف کردے ” ( صحیح البخاری حدیث 1895)
میرے بھائیو ! قرآن ایک عظیم الشان کتاب ہے خدارا اس سے غفلت مت برتیں ۔
میں جب قرآن کی یہ آیت :
” قال یا ربی ان قومی اتخذو ھذا القرآن مھجورا ”
پڑھتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ قیامت کہ دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ رب العزت کے سامنے یہ شکوہ کریں گے ” اے میرے رب قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا ”
ہے کوئی اس وقت میری اور آپکی شنوائی کرنے والا۔۔۔۔ ؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شکوہ کریں گے اللہ کے سامنے تو کسی بڑے سے بڑے مسلمان میں بھی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اللہ کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کھڑا ہوجاۓ ۔۔۔۔
اس لیے آج سے اپنی پچھلی کوتاہیاں چھوڑ کر اللہ کے قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرلو روانہ تلاوت کیا کرو دو چار آیتیں ترجمہ و تفسیر سے پڑھا کرو۔۔۔۔
گھر کے سربراہ ہو تو اپنے بیوی بچوں والدین بہن بھائی سب کو تھوڑا سا وقت نکال کر دو چار آیات تفسیر کے ساتھ سنا دو ۔ اس سے گھروں کا ماحول پاکیزہ ہوجاۓ گا گھروں میں برکتیں پیدا ہوں گی ۔
صرف سورة البقرہ کو ہی دیکھ لیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس گھر میں سورة البقرہ تلاوت کی جاتی ہے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے ۔ ( صحیح مسلم حدیث 1910)
لہذا معلوم ہوا کہ ” شیطانی قوتوں کا مداوا ” بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رکھا ہوا ہے.۔۔۔
جن لوگوں کو سمجھ ہے قرآن کیا کہتا ہے کبھی انکی تلاوت سنیں آئمہ حرمین کو سنیں جہاں اللہ کے عذاب کا تذکرہ آتا ہے وہاں انکی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں ۔شیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ کو کبھی سنیں آپکو پتا چلے گا کہ قرآن کے معانی جاننے والا عالم کیسے اللہ کے عذاب کا سن کر دہل جاتا ہے ۔۔۔۔۔
مومن کو یہی سکھایا گیا ہے کہ دو چیزوں کو سامنے رکھ کر اللہ کی عبادت کرے 1 اپنے رب کا خوف 2 اسکی رحمت کا لالچ قرآن مجید میں یہی تو اللہ نے فرمایا ہے ” یدعون ربھم خوفا و طمعا ” (سورة السجدہ آیت 16 ).
ترجمہ : ایمان والے اپنے رب کو خوف اور لالچ کے ساتھ پکارتے ہیں ۔
خوف اللہ کے جلال کا رعب ، ڈر ،ہیبت جب تک اللہ کا ڈر پیدا نہیں ہوتا بندہ اس وقت تک اچھائیاں نہیں کرتا بندہ ڈھٹائی اور دلیری کے ساتھ غلط کام کرتا رہتا ہے لیکن اگر اللہ کا خوف اور ڈر پیدا ہو اسکا مقام اسکی جلالت سامنے ہو بندے پر اللہ کا خوف طاری ہوجاۓ تو بندہ اللہ کی فرمانبرداری میں لگتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے ۔
اور طمع بندے کو ساتھ یہ ہوتی ہے کہ میں اللہ کی جہنم سے بچ کر اسکی جنت کا مہمان بن جاؤں اور جتنی نعمتیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذکر کیں ہیں وہ مجھے مل جائیں ۔۔۔۔۔
قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو دو نام “بشیر و نذیر” بیان کیے ہیں ان میں بھی یہی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی خوشخبری دینے والے اور دوزخ سے ڈرانے والے ہیں ۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ :
” تمہاری مثال ان پتنگوں کی ہے جو آگ میں برکت اپنے آپ کو ہلاک کرلیتے ہیں جہنم کی آگ جلی ہوئی ہے لوگو ! تم بھاگ بھاگ کر جہنم میں گرنے جارہے ہو میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر پیچھے کھینچتا ہوں کہ اس سے بچ جاؤ”۔۔۔۔ ۔( صحیح مسلم حدیث 2286).
سورۃ الکہف کے شروع میں ہی اللہ نے فرمایا :
و لعلک باخع نفسك علی آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا۔( سورۃ الکہف آیت 6)
ترجمہ: اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو ہوسکتا ہے انکے پیچھے جاکر آپ اپنی جان ضائع کر بیٹھیں۔
یہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کیلئے فکر کہ میری امت کا کوئی بندہ جہنم میں نہ چلا جاۓ۔
سورۃ ابراھیم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر کیا :
رب اجعل ھذا البلد آمنا واجنبی و بنی ان نعبد الاصنام ۔ رب انھن اضللنا کثیرا من الناس ( آیت 35 ۔36۔)
ترجمہ: اے میرے پروردگار اس مکہ شہر کو امن والا بنا دے مجھے اور میری نسل کو بت پرستی سے بچا کر رکھ میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سارے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے ۔
آگے فرماتے ہیں : و من تبعنی فانه منی ۔
” جس بندے نے میری پیروی کی وہ میرا ہے”
اور جس نے میری نافرمانی کی ؟ آگے یہ نہیں فرمایا کہ اسکو عذاب میں مبتلاء فرمادے بلکہ فرمایا کہ جس نے میری نافرمانی کی تو پھر تو بہت بخشنے والا مہربان ہے۔
اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے بدعا نہیں کی اپنے نافرمانوں کیلۓ بلکہ فرمایا :
” ان تعذبھم فانھم عبادك ”
میرے اللہ اگر تو ان بندوں کو عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو بخش دے تو تجھے پوچھنے والا کون ہے ؟.
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں سورۃ ابراھیم کی تفسیر میں یہ حدیث لاۓ ہیں کہ جب نبی علیہ السلام نے یہ آیات تلاوت میں تو آنکھوں سے آنسو آگۓ آپ نے اپنے ہاتھ اوپر بلند کرلیۓ اور رو رو کر بار بار ایک ہی جملہ کہ رہے ہیں
” رب امتی ، رب امتی ”
۔ میرے رب میری امت کو معاف کردے۔1۔۔۔
تو اللہ نے جبریل امین علیہ السلام کو بلا کر فرمایا :
” اے جبریل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جا اور جاکر سوال کر تمہیں کس چیز نے رلا دیا ہے اور تیرا رب سب سے زیادہ جانتا ہے ۔ جبریل زمین پر آگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتحال دیکھ کر واپس گۓ اور جا کر اللہ کو بتایا ” تیرا نبی تجھ سے اپنی امت کی بخشش کی دعا مانگ رہا ہے” تو اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو پھر بھیجا اور کہا جاؤ جاکر میرے نبی کو خبر دے دو جب قیامت کا دن ہوگا ہم آپ کو راضی کردیں گے ناراض نہیں کریں گے۔۔۔۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” قیامت والے دن میرا رب مجھے حمد و ثنا کے کچھ کلمات سکھاۓ گا اور میں اللہ کے حضور سر سجدے میں رکھ دوں گا اور اس میں وہ کلمات پڑھوں گا اور میرا رب پھر مجھے کہے گا اپنے سر کو اٹھائیے سوال کیجۓ آپکا عطاء کیا جاۓ گا۔ اس دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے ” الھم امتی ، الھم امتی ” آپ اپنی امت کا ایک حصہ جہنم سے نکلوا لیں گے پھر سر سجدہ میں رکھیں گے اور ایک حصہ نکلوا لیں گے اسی طرح جس شخص نے بھی دنیا میں اللہ کے ساتھ کفر و شرک نہیں کیا ہوگا آپ ہر اس گناہگار مسلمان کو جہنم سے نکلوا لیں گے”
( صحیح بخاری 7072 )۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” ہر نبی کی ایک دعا اللہ کے ہاں ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر نبی نے وہ دعا دنیا کی میں مانگ لی ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کیلئے قیامت والے دن کیلئے بچا کر رکھی ہےاور اگر اللہ نے چاہا تو میری دعا ان لوگوں کے حق میں ضرور قبول ہوگی کہ جو میری امت میں سے اس حال میں اللہ سے جاملیں کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوا ہو”۔۔۔۔۔
( صحیح مسلم 491 ، 493 و سنن ابن ماجہ 4307 )
کیونکہ شرک ایک ایسا گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا جو اس پر فوت ہوگا اسکی بخشش نہیں ہے ۔
” ان اللہ لا یغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذلك لمن یشاء”
( سورة النساء آیت 116 )
اور شرک ایسا جرم ہے کہ اللہ نے ایسے شخص کیلئے بخشش کی دعا مانگنے کی بھی اجازت نہیں دی جو اس جرم پر فوت ہوا ۔
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ….
( سورة التوبة ۱۱۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ سب افراد جو شرک نہیں کرتے ہونگے وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہونگے کہ آپ علیہ السلام کی سفارش پر آزاد کردیۓ جائیں گے۔
بلکہ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ :
” وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے جل کر کالے سیاہ ہوچکے ہونگے کہ اللہ انکو جہنم سے نکال کر نہر حیات میں داخل کردے گا جب وہ اس نہر میں غسل کریں گے تو ساری سیاہی ان سے دھلجاۓ گی اور وہ صاف شفاف ہوکر اللہ کی جنت میں چلے جائیں گے”۔۔۔۔۔۔۔
( صحیح بخاری کتاب الرقائق، باب صفۃ الجنۃ والنار )
دیکھیں میرے بھائیو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی کتنی فکر کیا کرتے تھے کہ یہ امت جہنم میں نہ جاۓ لہذا اس ماہ مبارک کی برکت سے ہمیں فایدہ اٹھانا چاہیے باقی ماندہ دنوں میں مزید محنت کرنی چاہیے تاکہ اللہ ہمارے گناہوں کو بخش دے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوس پا سکیں۔۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” وہ انسان بڑا بدبخت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا “۔۔۔۔۔
میرے بھائیو ! آج جائزہ لے لو ہم نے کتنی نیکیاں کمائیں ؟ اپنی نمازوں ،روزوں ،قیام اللیل ،اپنی تلاوت قرآن کا جائزہ لے لو ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا جائزہ لے لو ،پڑوسیوں اور رشتے داروں سے سلوک کا جائزہ لے لو ، اگر کسی پر ظلم کیا ہے تو معافی مانگ لو اس سے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو معاف کردے اور جنت الفردوس میں داخل کردے اور اپنی اور اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کے رنگ میں رنگ دے۔
و آخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : یہ رمضان المبارک 1441 ھ کے آخری جمعة المبارک کا خطبہ ہے۔۔۔۔۔
🎙 خطبہ جمع فضیلة الشیخ مفتی مبشر احمد ربانی صاحب حفظہ اللہ۔..
تحریر: رانا عبداللہ مرتضی السلفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔