ہمارے غم یہ  ہیں
بچے کا دودھ ختم ہے۔ پیمپر نہیں ہیں۔ بجلی کا بل زیادہ آیا ہے۔ مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔ بچی کے جہیز کے لیے پیسے کب جمع ہونگے۔ یونیورسٹی کی فیس بھی دینی ہے۔ فلاں لیڈر لندن سے آ گیا ہے۔ فلاں جیل چلا گیا۔
اس دفعہ ووٹ میں فلاں کو دونگا۔ چائے میں آج چینی بہت کم ہے۔ سبزی اب کھانے کو دل ہی نہیں کر رہا۔ کچھ اسپیشل کھایا جائے۔ آج کرکٹ میچ میں کھلاڑی کو ایسے نہیں ایسے کھیلنا چاہیے تھا۔ فلاں کی ویڈیو لیک ہو گئی تم نے دیکھی ہے۔ یا میں بھیج دوں؟ میرے موبائیل کی چارجنگ جلدی ختم ہو جاتی ہے۔ میں ایک مہینے سے پریشان ہوں۔ کوئی حل ہے تمہارے پاس۔
مجھے کچھ سیکھنا ہے۔ آگے بڑھنا ہے۔ اس تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ٹک ٹاک سے کمانے کا طریقہ پتا ہے آپ کو۔ اگلی دفعہ گرمیوں میں کہاں گھومنے کا ارادہ ہے۔ ناران اچھا رہے گا۔ تم کیا کہتے ہو؟

اُن کے غم
کل سے بمباری ہو رہی ہے۔ میرا بیٹا مجھے ملبے تلے نہیں مل رہا۔ ابو جلدی گھر آجائیں۔ صرف چھوٹا بھائی ملبے سے ملا ہے۔ باقی کسی کا پتہ نہیں کہاں ہیں۔ ہسپتال لے چلو ان سب کو۔ لیکن ہسپتال کی پرلی دیوار تھوڑی دیر پہلے راکٹ سے گرا دی گئی ہے۔ تین ڈاکٹر موقعہ پر شہید ہو گئے۔ بس ایک ہی ڈاکٹر سب مریضوں کو دیکھ رہا۔ دوست جلدی آ جاؤ۔ میری پوری فیملی ختم ہو چکی ہے۔ بس ایک چھوٹا بیٹا بچا ہے۔ اسے اور مجھے لے جاؤ۔ دوست میں آرہا ہوں۔ لیکن راستہ بند ہے۔ گاڑی کا ٹائر سب ختم۔ راستے بند۔ پٹرول وغیرہ پمپ سب بند ہیں۔ میں چھوٹی بیٹی کو بچا کر لے آیا ہوں۔ لیکن اس کی دائیں ٹانگ کٹ گئی ہے۔ بس وہ بے ہوش ہے۔
ریسکیو ٹیمیں پہنچ گئی ہیں۔ لیکن اسرائیلیوں نے راستے بند کیے ہیں۔ ہسپتال میں دو ڈاکٹر ہیں اور 150 شدید زخمی سلسلہ بہت لمبا ہے۔ لیکن کہاں تک لکھوں۔ بس اپنے غموں کو بھول جائیں۔ امت کی فکر کریں۔ دعا کریں۔ اور ان حکمرانوں اور حکومتوں کا بائیکاٹ کریں۔ فلسطینیوں کے لیے دعائیں کریں۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائییکاٹ کریں۔

شیر سلفی