سوال (2294)

کیا حاملہ بکری کو عقیقہ یا قربانی پر کر سکتے ہیں؟

جواب

شریعت میں اس سے منع نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

حاملہ بکری کو قربانی وغیرہ کے لیے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، فتاویٰ اصحاب الحدیث میں یہی موقف بیان کیا گیا ہے اور دلیل درج ذیل روایت کو بنایا ہے:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم کوئی اونٹنی، گائے یا بکری ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ سے بچہ نکل آتا ہے، کیا ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اگر چاہو تو کھا لو، بلاشبہ اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی اس کے لیے ذبح ہے۔”، [سنن ابی داؤد: 2827]

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

سائل:
مذبوحہ بکری کے پیٹ سے بچہ نکل آئے تو عموماً اس سے کراہت کی جاتی ہے، تو اسی کراہت کی بنا پر کیا یہ مناسب نہیں کہ قصدا حاملہ جانور کے ذبح سے اجتناب برتا جائے، لیکن اگر حمل معلوم ہی نہ ہو اور بچہ نکل آئے تو کھانے میں کوئی حرج بھی نہیں؟
جواب:
بالعموم یہی ہوتا ہے کہ لوگ علم ہوجانے پر حاملہ جانور کو ذبح کرنے سے احتراز ہی کرتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

اس کے ذبح کرنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَنِينِ، فَقَالَ:” كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ، وَقَالَ مُسَدَّدٌ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَنْحَرُ النَّاقَةَ، وَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ وَالشَّاةَ فَنَجِدُ فِي بَطْنِهَا الْجَنِينَ أَنُلْقِيهِ أَمْ نَأْكُلُهُ؟ قَالَ: كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَكَاتَهُ ذَكَاةُ أُمِّهِ.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو اسے کھا لو“ ۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے“۔ [سنن ابي داود ، كِتَاب الضَّحَايَا ،حدیث: 2827]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس حدیث کی سند کے بارے فرماتے ہیں “لا بأس به”
الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حاملہ بکری کی قربانی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، جب وہ باقی عیوب سے پاک ہو

” يصح التضحية بالشاة الحامل ، كما يصح بالحائل، إذا كانت سليمة من العيوب المنصوصة في الأضاحي ” [فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن إبراهيم : 6/146]
الفتوى اللجنة بمجمع البحوث الإسلامية بالأزهر میں ہے:
“ذهب جمهور الفقهاء إلى جواز الأضحية بالحامل من بهيمة الأنعام ولم يعتبروا ذلك سبباً يمنع الذبح”

“جمہور علماء کے نزدیک حاملہ جانور ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور یہ کوئی ایسا سبب نہیں کہ جس کی وجہ سے جانور ذبح نہ کیا جاسکے”
الشیخ عبد الرحمن مبارکپوری تحفة الأحوذي ميں حدیث نمبر 2431 کی شرح میں فرماتے ہیں: قوله:

“ذكاة الجنين ذكاة أمه” والمراد الإخبار عن ذكاة الجنين بأنها ذكاة أمه، فيحل بها كما تحل الأم بها، ولا يحتاج إلى تذكية۔

جنین کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ، وہ بھی اسی طرح حلال ہے، جس طرح اس کی ماں۔
واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث مقصود احمد حفظہ اللہ

ادلہ اور سلف صالحین کی تصریحات کے مطابق صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ایسی حاملہ اور دودھ والے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے البتہ کوشش کریں کے دودھ والے جانور کے متبادل جانور ذبح کے لیے مل جائے تو اسے ذبح کیا جائے کیونکہ ایک موقع پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا ﺇﻳﺎﻙ، ﻭاﻟﺤﻠﻮﺏ دودھ والی بکری مت ذبح کرنا
[صحیح مسلم: 2038 ،سنن ابن ماجہ: 3180، مسند أبی یعلی: 6177]
اور حدیث ذكاة الجنين ذكاة أمه کئی صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے مروی ہےاور یہ کئی طرق واسانید سے بیان ہوئی ہے۔
امام ترمذی نے کہا:

ﻭﻓﻲ اﻟﺒﺎﺏ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ، ﻭﺃﺑﻲ ﺃﻣﺎﻣﺔ، ﻭﺃﺑﻲ اﻟﺪﺭﺩاء، ﻭﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ.( قلت وأيضا عن كعب بن مالك ،و أبي ايوب ،وابن مسعود، وابن عباس، وابن عمر وغيره)
ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ، ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻱ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻫﺬا اﻟﻮﺟﻪ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﻭاﻟﻌﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ، ﻭﻫﻮ ﻗﻮﻝ ﺳﻔﻴﺎﻥ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻭاﻟﺸﺎﻓﻌﻲ، ﻭﺃﺣﻤﺪ، ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ
[سنن ترمذی: 1476]

امام بیھقی ایک حسن لذاتہ طریق سے روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

ﻭﻓﻲ اﻟﺒﺎﺏ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ, ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ , ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ , ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ , ﻭﺃﺑﻲ ﺃﻳﻮﺏ , ﻭﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ , ﻭﺃﺑﻲ اﻟﺪﺭﺩاء , ﻭﺃﺑﻲ ﺃﻣﺎﻣﺔ , ﻭاﻟﺒﺮاء ﺑﻦ ﻋﺎﺯﺏ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ ﻭﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻛﻌﺐ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﻴﻦ: ﺇﺫا ﺃﺷﻌﺮ ﻓﺬﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ
[السنن الکبری للبیھقی: 19492]

ہم یہاں اس کے تمام طرق واسانید کو بیان نہیں کریں گے نہ ہی یہاں اس کی ضرورت ہے۔
البتہ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر کچھ چیزیں نقل کیے دیتے ہیں جس سے اس مسئلہ کی تائید ہوتی ہے کہ ماں کا ذبح کرنا اس کے بچے کا ذبح کرنا ہے۔

ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ؛ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﺫا ﻧﺤﺮﺕ اﻟﻨﺎﻗﺔ، ﻓﺫﻛﺎﺓ ﻣﺎ ﻓﻲ ﺑﻄﻨﻬﺎ ﻓﻲ ﺫﻛﺎﺗﻬﺎ. ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻗﺪ ﺗﻢ ﺧﻠﻘﻪ، ﻭﻧﺒﺖ ﺷﻌﺮﻩ. ﻓﺈﺫا ﺧﺮﺝ ﻣﻦ ﺑﻄﻦ ﺃﻣﻪ، ﺫﺑﺢ، ﺣﺘﻰ ﻳﺨﺮﺝ اﻟﺪﻡ ﻣﻦ ﺟﻮﻓﻪ
[مؤطا امام مالک: 1793، 3/ 700،و رواية أبي مصعب الزهري: 2144 ﺑﺎﺏ ﺫﻛﺎﺓ ﻣﺎ ﻓﻲ ﺑﻄﻦ اﻟﺬﺑﻴﺤﺔ، صحيح]
عبد الرزاق ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﻴﻦ: ﺇﺫا ﺧﺮﺝ ﻣﻴﺘﺎ، ﻭﻗﺪ ﺃﺷﻌﺮ، ﺃﻭ ﻭﺑﺮ ﻓﺬﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ
[مصنف عبد الرزاق: 8642 صحيح]
ﻗﺎﻝ ﻣﺴﺪﺩ: ﺛﻨﺎ اﻟﻤﻌﺘﻤﺮ، ﻋﻦ ﻟﻴﺚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: اﻟﺠﻨﻴﻦ ﻳﺬﺑﺢ ﺣﺘﻰ ﻳﺨﺮﺥ ﻣﺎ ﻓﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﺪﻡ ۔
[مسند مسدد / إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري :5/ 287 ( 4682) /1 سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻌﻼء ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ، ﺛﻨﺎ اﻟﻠﻴﺚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﺃﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﺳﺌﻞ ﻋﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺒﻄﻦ؟، ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﺫا ﻧﺤﺮﺕ ﺃﻣﻪ، ﻓﻜﺎﻥ ﻗﺪ ﺗﻢ ﺧﻠﻘﻪ، ﻭﻧﺒﺖ ﺷﻌﺮﻩ ﻓﺈﻥ ﺫﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃمه
[جزء أبي الجهم:(66) سنده صحيح]

العلاء بن موسی ثقہ محدث ہیں.
حافظ ذہبی نے کہا:

ﻭﻓﻴﻬﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺠﻬﻢ اﻟﻌﻼء ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ ﺑﺒﻐﺪاﺩ. ﻭﻟﻪ ﺟﺰء ﻣﺸﻬﻮﺭ ﻣﻦ ﺃﻋﻼ اﻟﻤﺮﻭﻳﺎﺕ ﺭﻭﻯ ﻓﻴﻪ ﻋﻦ اﻟﻠﻴﺚ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻭﺟﻤﺎﻋﺔ.
ﻗﺎﻝ اﻟﺨﻄﻴﺐ: ﺻﺪﻭﻕ
[العبر في خبر من غبر:1/ 317]

اور کہا:

ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺠﺰء اﻟﻤﺸﻬﻮﺭ اﻟﺬﻱ ﻫﻮ ﺃﻋﻠﻰ اﻷﺟﺰاء ﺇﺳﻨﺎﺩا
[تاريخ الإسلام للذهبى :16/ 309]
اور کہا:

اﻟﺸﻴﺦ، اﻟﻤﺤﺪﺙ، اﻟﺜﻘﺔ، ﺃﺑﻮ اﻟﺠﻬﻢ اﻟﻌﻼء ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻋﻄﻴﺔ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ، اﻟﺒﻐﺪاﺩﻱ، ﺻﺎﺣﺐ ﺫاﻙ اﻟﺠﺰء اﻟﻌﺎﻟﻲ
[سير أعلام النبلاء :10/ 525]
ليث عن نافع کے طریق سے مزید دیکھیے معجم [ابن المقري: 1286]

فائدہ:
سیدنا عبد الله بن عمر رضى الله عنه سے اس کا موقوفا ہونا ہی راجح ہے
[دیکھیے علل الحدیث لابن أبی حاتم الرازی :(1614) 4/ 524 ،، العلل للدارقطنى :(2976)13/ 97،96 ،السنن الكبرى للبيهقى:(19493 ،19494 ،19495]

ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻗﺴﻴﻂ اﻟﻠﻴﺜﻲ ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ، ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺫﻛﺎﺓ ﻣﺎ ﻓﻲ ﺑﻄﻦ اﻟﺬﺑﻴﺤﺔ، ﻓﻲ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ. ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻗﺪ ﺗﻢ ﺧﻠﻘﻪ، ﻭﻧﺒﺖ ﺷﻌﺮﻩ
[مؤطا امام مالک:(1794)،ورواية أبي مصعب الزهري (2145) سنده صحيح]
عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﻴﻦ: ﺇﺫا ﺃﺷﻌﺮ ﺃﻭ ﻭﺑﺮ ﻓﺬﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ
[مصنف عبد الرزاق :(8640) صحیح]

مزید آثار سلف صالحین کے لیے دیکھیے مصنف عبد الرزاق کا یہی مقام۔
امام ابراہیم النخعی نے کہا:

ﺫﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ
[الجعدیات/ مسند علی بن الجعد: 667 صحیح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﻔﻀﻞ، ﺃﻧﺒﺄ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ، ﺛﻨﺎ ﺁﺩﻡ، ﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ اﻟﻤﻐﻴﺮﺓ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: اﻟﺠﻨﻴﻦ ﺫﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ
[السنن الكبرى للبيهقى: (19499) صحيح]
اور حدیث مرفوع دیکھیے مسند أحمد بن حنبل :(11343) ،صحیح ابن حبان :(5889)
ذكر اﻟﺒﻴﺎﻥ ﺑﺄﻥ اﻟﺠﻨﻴﻦ ﺇﺫا ﺫﻛﻴﺖ ﺃﻣﻪ ﺣﻞ ﺃﻛﻠﻪ
سنده حسن لذاته

محدث مدینہ علامہ عبدالمحسن العباد حدیث جابر کی شرح میں لکھتے ہیں:

ﺃﻱ: ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺃﻥ ﻳﺬﻛﻰ ﺇﺫا ﻭﺟﺪ ﻣﻴﺘﺎ، ﻭﻟﻜﻦ ﺇﻥ ﻭﺟﺪ ﺣﻴﺎ ﺃﻭ ﺑﻪ ﺣﻴﺎﺓ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺬﻛﻰ، ﻭﺫﻟﻚ ﻣﺜﻞ اﻟﺼﻴﺪ ﺇﺫا ﺃﺻﻴﺐ ﺑﺴﻬﻢ، ﻓﺈﻥ ﻣﺎﺕ ﺑﺎﻹﺻﺎﺑﺔ ﻓﻬﻮ ﺣﻼﻝ، ﻭﺇﻥ ﺃﺩﺭﻙ ﻭﻓﻴﻪ ﺣﻴﺎﺓ ﺗﻌﻴﻦ ﺫﺑﺤﻪ ﻭﺇﻻ ﺣﺮﻡ، ﻓﻬﺬا ﻣﻦ ﺟﻨﺴﻪ: ﺇﻥ ﻭﺟﺪﺕ ﻓﻴﻪ ﺣﻴﺎﺓ ﺫﺑﺢ، ﻭﺇﻥ ﻭﺟﺪ ﻣﻴﺘﺎ ﻓﺬﻛﺎﺗﻪ ﺫﻛﺎﺓ ﺃﻣﻪ ﻭﻳﺤﻞ ﺃﻛﻠﻪ ﻭﻻ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺃﻥ ﻳﺬﺑﺢ
((شرح سنن أبي داود ،شرح حدیث جابر فی حدیث ذكاة الجنين ذكاة أمه ))

مزید دیکھیے الاستذکار لابن عبد البر وغیرہ
امام أحمد بن حنبل نے کہا:

ﺫﻛﺎﺓ اﻟﺠﻨﻴﻦ ﺫﻛﺎﺓ اﻣﻪ
[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله بن أحمد :(982) ،مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح :(456) 1/ 451، مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه:5/ 2252 ،2253]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ