سوال (2197)

شیخ سوال یہ ہے کہ میں نے اور ہمسائے نے ایک ہی مالک سے دو، دو مرلے کا مکان خریدا ہے،
ہمارے پرانے مالک مکان نے گیس کا میٹر مجھے اسٹام پیپر پر لکھ کر دیا ہے اور اس کے اضافی پیسے بھی مجھ سے وصول کیے ہیں،
لیکن میرے ہمسائے نے وہ میٹر تقریبا دو سال بعد گیس محکمے سے غلط بیانی کر کے اور رشوت دے کر اپنے نام کروا لیا ہے، اور حدیث میں انسان کے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑنے کی فضیلت آئی ہے، اب سوال یہ ہے میں تو حق پر ہوں کہ گیس کا میٹر میرا ہے، لیکن ہمسایہ کہہ رہا ہے کہ میرا ہے، اب میں وہ میٹر ہمسائے کو دے دوں؟ جھگڑا چھوڑ دوں،
کیا میں اس مسئلے میں اس حدیث کا مصداق بنوں گا کہ اپنا حق اس کو دے دوں؟ کیونکہ مصلحتی کونسل مجھے یہ حدیث سنا کر چپ کروا رہی ہے کہ کمپرومائز کرلیں اور میٹر اپنے ہمسائے کو دے دیں اور یہ آپ کو گیس دے دے گا، میں حق پر ہوں کہ میں میٹر اس کو کیونکر دوں، اس حدیث مبارکہ کی مکمل تشریح بیان فرما دیجیے کہ ہمارے وہ کون سے ایسے جھگڑے ہیں کہ جن جن پر یہ حدیث فٹ آئے گی؟

جواب

یہ معاملہ بہت زیادہ طویل یا گمبھیر نہیں ہے، اس میں ہماری یہ رائے ہوگی کہ آپ صبر اختیار کرلیں، ہمسائے کو میٹر دے دیں ، اس حدیث پر کامل یقین رکھیں ، اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً يُعْطَى بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزَى بِهَا فِي الْآخِرَةِ وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا”
[صحیح مسلم: 2808]

«بے شک اللہ تعالیٰ کسی مومن کے ساتھ ایک نیکی کے معاملے میں بھی ظلم نہیں فرماتا۔ اس کے بدلے اسے دنیا میں بھی عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی جزا دی جاتی ہے۔ رہا کافر، اسے نیکیوں کے بدلے میں جو اس نے دنیا میں اللہ کے لئے کی ہوتی ہیں، اسی دنیا میں کھلا (پلا) دیا جاتا ہے حتیٰ کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی جس کی اسے جزا دی جائے»

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ