عقلاء و حکماء کا اتفاق ہے کہ فائدہ مند غذا لینا اور نامناسب غذا سے اپنے آپ کو بچانا ہی جسم وجان کی درست اور تندرست نشو ونما کا ضامن ہے، مزید یہ کہ ہر انسان غذا اپنے لیول کے اعتبار سے لے گا، نوزائیدہ بچے کو اس کے مطابق غذا دی جائے گی، نوجوان اور بوڑھے کو اس کے حساب سے ۔
اگر کوئی کہے کہ غذاؤں سے نہ ڈرو بلکہ اپنا معدہ مضبوط کرنے کے لیے ہر طرح کا کھانا ٹھونستے چلے جاؤ بلکہ ہوسکے تو زہر کی چٹکی بھی لے لیا کرو تمہارا معدہ اتنا ہی کمزور ہے کہ غلط سلط کھانے سے خراب ہو جاتا ہے بلکہ ہر چیز کھاتے پیتے جاؤ اس سے تو آپ کا ہاضمہ مضبوط ہو گا اور صحت مند جسم حاصل ہو جائے گا تو اسے کوئی بھی عقل مند درست قرار نہیں دے گا۔
بعینہ انسانی عقل کا معاملہ ہے، تمام اہلِ عقل و دانش کا اتفاق ہے کہ عقول کی درجہ بندی میں عمر، عقل، علاقہ، علمی خلفیہ نہایت اہم ہوتے ہیں، لٹریچر ویڈیو/آڈیو کی شکل میں ہو یا کتابی صورت میں، ہر ایک سننے پڑھنے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ کوئی چیز دیکھنا/پڑھنا اخلاقاً درست نہیں ہوتا، کوئی شرعا ناجائز ہوتا ہے، کوئی اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتا ہے، کسی سے عقلی معیارات میں خرابی واقع ہوتی ہے اور بعض لٹریچر تو ایمان کے متعلق شبہات کی وجہ بنتا ہے۔ پھر غذا کی طرح عمر کے لحاظ سے بھی کچھ لٹریچر بچوں کے لیے تو نقصان دہ ہوتا ہے لیکن بڑوں کے لیے نہایت مفید۔ پھر اس بات میں کوئی ادنی طالب علم بھی اختلاف نہیں کرتا کہ علم و عقل کے اعتبار سے سبھی لوگ ایک ہی درجے پر نہیں ہوتے، اگر سب کی عقول و افہام اور مقاومتِ شہوت برابر ہوتی تو دنیا میں کوئی گمراہی نہ ہوتی۔
اگر کوئی کہے کہ کسی کو پڑھنے سے نہ ڈرو، تمہارا ایمان اتنا ہی کمزور ہے کہ کسی کو سننے پڑھنے سے متزلزل ہو جائے گا بلکہ ہر بندہ ہر چیز پڑھے سنے اس سے ایمان مضبوط ہو جائے گا تو یہ ہر اچھی بری غذا کھانے کا مشورہ دینے والے کی طرح نہایت سطحی رائے ہے۔ اسی لیے ہمیشہ سے علماء بعض کتب و مصنفین سے کلیتاً گریز کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ عوام و مبتدی طلاب پر تدریج کی بنیاد پر مرحلہ وار مطالعے کی شرط لگاتے ہیں یہ منہج اہلِ علم کے ہاں اجماع و تواتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے۔ رہا یہ سلوگن کہ ’’ہر بندہ بنا حدود و قیود ہر کسی کو پڑھے‘‘ یہ علم و عقل کے بالکل منافی ہے۔
یہاں یہ تنبیہ بھی لازماً قابلِ ذکر ہے کہ ایمان کے متعلق یہ کہنا کہ ایک دفعہ حاصل ہو جانے کے بعد اس میں کسی خارجی عامل کی بنیاد پر کمی واقع نہیں ہوتی یا یہ آ جائے پھر دوبارہ متزلزل نہیں ہوتا اور کہیں نہیں جاتا جو مرضی کر لو، یہ خالص ارجائی عقیدہ ہے جو اہلُ السنہ والجماعہ کے اجماعی عقیدے کے خلاف ہے۔ نیز قرآنی و حدیثی نصوص واضح ہیں جن میں راسخینِ علم بھی گمراہی بعد از ہدایت سے پناہ مانگتے ہیں بلکہ بہت سی ادعیہ مأثورة میں اپنے ایمان کے متعلق خوف بالکل عیاں ہوتا ہے۔

 حافظ محمد طاھر