حسد- اللہ تعالیٰ نے دوسرے شخص کو جو نعمت عطا کی ہو، اسے ناپسند کرنا حسد ہے۔ دوسرے شخص کو جو نعمت عطا کی گئی ہو، محض اس کے زوال کی خواہش کرنا ہی حسد نہیں بلکہ اسے ناپسند کرنا بھی حسد ہے۔ تاہم انسان بعض اوقات غیر ارادی طور پر حسد کا شکار ہو جاتا ہے جس کا علاج یہ ہے کہ حاسد محسود کو کوئی نکلیف نہ دے، نہ ہاتھ سے، نہ زبان سے۔ وہ اس پر کوئی ظلم نہ کرے۔ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کرے۔ ارشاد نبوی ہے:

إذا حسدت فلا تبغ و إذا ظننت فلا تحقق.

(فتح الباري.)

یعنی جب تم حسد کرو تو زیادتی مت کرو اور جب تم گمان کرو تو تحقیق مت کرو۔
حاسد متعدد خطاؤں میں ملوث ہو جاتا ہے:
1- وہ اللّٰہ کی تقدیر سے راضی نہیں ہوتا۔
2- وہ محسود سے زیادتی کی کوشش کرتا ہے۔ لوگوں کو اس سے متنفر کرتا ہے۔ لوگوں کے سامنے اس کے عیب بیان کرتا ہے۔ اسی طرح کے دیگر گناہوں میں ملوث ہو کر وہ اپنی نیکیاں ضائع کر لیتا ہے۔
3- وہ محسود کو دیکھ کر جلتا بھنتا رہتا ہے۔ یوں وہ تنگدلی اور پریشانی کا شکار رہ کر خوشیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ محسود کی ٹوہ میں رہتا ہے کہ آیا اسے کوئی اور نعمت تو میسر نہیں آ گئی۔ یوں وہ اپنا چین سکون برباد کر لیتا ہے۔
4- حسد یہودیوں کا شیوہ ہے۔ یوں اس سے یہودیوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔
5- حاسد جتنا بھی حسد کرے، وہ جتنا بھی طاقتور ہو جائے، محسود کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، وہ ان کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔ سو حسد کرنے کا کیا فائدہ؟!!!
6- حسد کمالِ ایمان کے منافی ہے۔ ارشاد نبوی کے مطابق ایمانِ کامل کی ایک علامت یہ ہے کہ آدمی اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی شے پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ آدمی کو یہ ناپسند ہو کہ اس کے مسلمان بھائی کی نعمت کا خاتمہ ہو جائے۔ اس کے برعکس حسد میں آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ دوسرے شخص کی نعمت کا خاتمہ ہو جائے۔
7- حسد میں انسان اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کا سوال نہیں کرتا۔ اسے صرف یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ دوسرے شخص کو جو نعمت حاصل ہے، کسی طرح وہ اس سے چھن جائے۔ یوں وہ اپنے لیے دعا سے محروم ہو جاتا ہے۔
8- اللّٰہ تعالیٰ نے حاسد کو جو نعمت عطا کی ہو، اسے وہ معمولی اور حقیر سمجھتا ہے۔ اسے اپنی نعمت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ اسے محسود کی نعمت ہی بڑی اور غیر معمولی لگتی ہے۔ یوں وہ اللّٰہ کی نعمت کا شکر ادا نہیں کرتا۔
9- حسد سے بد اخلاقی پیدا ہوتی ہے۔ حاسد محسود اور لوگوں کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ محسود کے خیر کے کاموں کو حقیر اور معمولی دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔
10- حاسد پر جب حسد غالب آتا ہے تو وہ عموماً محسود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں اس کی نیکیاں محسود کی جھولی میں جا گرتی ہیں۔ اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو محسود کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔
• بد قسمتی سے علماء و طلبہ کے درمیان بہت زیادہ حسد پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک پیشے سے وابستہ لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود علماء و طلبہ کے حلقوں میں زیادہ شدید حسد پایا جاتا ہے۔
• پس آپ اگر کسی شخص کو اللہ کی کسی نعمت سے بہرہ یاب دیکھیں تو اس نعمت کو ناپسند کرنے کے بجائے اس کے حصول کی کوشش کریں اور دعا کریں کہ یا اللہ! اسے مزید عطا فرما اور ہمیں اس سے زیادہ عطا فرما۔ یاد رکھیے، آپ کے حسد کرنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا۔

(افاداتِ عثیمین، ماخذ: کتاب العلم، تلخیص و ترجمہ: ح ق ح۔)

حافظ قمر حسن