سوال (2926)
کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ہیلتھ انشورنس کروانا مجبوری بن جاتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں معمولی علاج کے لیے بھی ہزاروں روپے لگ جاتے ہیں جو بسا اوقات برداشت کرنا مشکل ہوجاتے ہیں۔ تو کیا ایسے ممالک میں ہیلتھ انشورنس کروائی جا سکتی ہے؟
جواب
اگر یہ غیر مسلم ممالک ہیں، تو وہاں سے خروج کردینا چاہیے، وہاں رہنا اس کے لیے صحیح نہیں ہے، اگرچہ ہمارے ہاں پر بات نہیں کی جاتی ہے، اگر وہ نام نہاد اسلامی ممالک ہیں، پھر بھی وہاں ایسی پابندیاں ہیں، اس قدر پابندیاں ہیں تو کوشش کرکے وہاں سے نکل کر آجائیں، اس لیے علاج کو مہنگا کیا گیا ہے، تاکہ لوگ اس طرف آئیں، یہ ربا اور سود کا معاملہ ہے، یہ صحیح نہیں ہے، اس سے شفاء تو دور بیمار ہی ہونا ہے، اگر عارضی طور پہ کسی مسئلے میں گیا ہے، وہاں جا کر پھنس گیا ہے، پھر گنجائش دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کو پتا ہے کہ مجھے یہاں نہیں رہنا ہے، میں صرف ایک مقررہ وقت کے لیے آیا ہوں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پیارے بھائی آپ کو غلط فہمی لگی ہے، میری فیلڈ ہی فنانس ہے اور پھر اللہ نے ہدایت دی تو درس نظامی کا کورس بھی کیا میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ جیسے کوے کو سفید نہیں کہا جا سکتا ہے، اسی طرح یہ کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ انشورنس کروانے سے ہمیشہ ہمارے پیسے بچتے ہیں، بلکہ یہ ایک جوا ہوتا ہے اور اس میں ہمیشہ کا فائدہ صرف انشورنس کمپنی کو ہوتا ہے، جب ہم لانگ ٹائم کا حساب کریں مثلا دس سال کا حساب کریں تو اس میں کوئی انشورنس کمپنی آپ سے جتنا ہیلتھ انشورنس میں پیسے لے گی اگر وہ آپ انشورنس کمپنی کو نہ دیتے اور اپنا علاج خود کرواتے تو آپ کو لازمی پیسے بچتے اسکی وجہ میں نیچے ایک ٹیبل سینڈ کرتا ہوں پھر بتاتا ہوں، دیکھیں اس میں ایک انشورنس کمپنی کے دس سال کا حسان لکھا ہے پہلے کالم میں سال لکھے ہیں دوسرے میں جو اس کمپنی نے آپ سے پریمیئم ہر سال لیا وہ لکھا ہے تیسرے میں جو اس نے آپ کے خرچے کیے وہ لکھے ہیں اور چوتھے میں جو اس نے فرق منافع یا نقصان کمایا وہ لکھا ہے۔
پس ہمیشہ کل دس سالوں میں جو آپ نے اس کمپنی کو پریمیئم دیا ہو گا آپ کے دس سالوں کے ہیلتھ کے خرچے لازمی لازمی لازمی اس سے کم ہوں گے ورنہ پھر اس کمپنی کو منافع کہاں سے حاصل ہو گا اسکے خرچے کہاں سے پورے ہوں گے۔
پس ہوتا ایسا ہے کہ ان دس سالوں میں ایک بندہ پہلے چار سال انشورنس کروا لیتا ہے دوسرا بندہ اگلے چار سال انشورنس کروا لیتا ہے اور تیسرا بندہ آخری دو سال انشورنس کرواتا ہے
اب ان تینوں نے جوا کھیلا جس جوے کا انتظام انشورنس کمپنی نے کیا پہلے بندے نے پہلے چار سال بیس بیس روپے پریمیئم دیا یعنی 80 روپے دے دئیے لیکن اسکا کوئی ہیلتھ کا خرچہ ہی نہیں ہوا پس اسکے تو یہ 80 روپے ہی ضائع ہو گئے
اب دوسرے بندے نے بھی چار سال میں 80 روپے دیئے لیکن اس کے 160 روپے خرچے بھی ہو گئے جو اسکو کمپنی نے واپس کر دیئے تو اسکا تو فائدہ ہو گیا کہ 80 روپے دے کر اس نے 160 روپے کے خرچے پورے کر لیے۔
اب تیسرے بندے نے آخری دو سالوں میں کل 40 روپے پریمیئم دیا مگر اسکے کوئی ہیلتھ پہ خرچہ ہی نہیں ہوا اسکا بھی یہ نقصان ہو گیا، پس اس میں پہلے اور تیسرے بندے کے نقصان سے دوسرے بندے کا فائدہ ہوا لیکن انشورنس کمپنی کو بالکل کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس نے تو اپنے خرچے بھی نکالے اور منافع بھی کمایا پس انشورنس کمپنی صرف جوا کرواتی ہے باقی فائدہ یا نقصان لوگوں کو ہوتا ہے، پس یہ یاد رکھیں کہ اگر آپ کو کسی ملک میں انشورنس کروانے پہ مجبور نہیں کیا جاتا تو آپ وہاں انشورنس نہیں کروا سکتے ہیں لیکن اگر آپ کو مجبور کیا جاتا ہے مثلا عمرہ یا حج پہ جانے کے لئے ہمیں انشورنس کروا کر جانا پڑتا ہے یا دوسرے یورپیئن ممالک میں آپ کو جانے کے لئے ایسا اگر لازمی کروانا ہوتا ہے تو وہ مجبوری ہے اگر جانے کی ٹھوس دلیل موجود ہے تو پھر آپ انشورنس کروا کر ہی جائیں گے جیسے عمرہ یا حج وغیرہ پہ جاتے ہیں، اچھا ایک اور چیز بھی بتا دوں کہ بعض ممالک جیسے سعودیہ جو حج وغیرہ پہ انشورنس کی بات کرتا ہے اسکا مقصد جوا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس لئے کہتا ہے کہ اکثر لوگ بس تھوڑی رقم آتی ہے تو عمرہ پہ چلے جاتے ہیں اور وہاں بیمار ہوتے ہیں تو خرچہ کے لئے پیسے نہیں ہوتے تو مجبورا وہاں کی حکومت کو پھر خرچہ کرنا پڑتا ہے جو اس پہ بوجھ ہوتا ہے اس لئے انہوں نے یہ انشورنس کو لازمی رکھا ہوتا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کوئی یورپ پڑھنے جاتا ہے تو پہلے انکو اپنے بینک سٹیٹمنٹ میں کم از کم بیلنس دکھانا پڑتا ہے تاکہ یہ وہاں جا کر ان پہ بوجھ ہی نہ بن جائیں وغیرہ پس ایسی انشورنس کروائی جا سکتی ہے۔
ہمارے واپڈا میں بھی ہمارے بڑے ڈیم جو بن رہے ہیں جیسے مہمد ڈیم یا بھاشا ڈیم ہے ان کے ٹھیکیدار کو کہا جاتا ہے کہ آپ لازمی انشورنس کروائیں کہ کل کو آپ کا کوئی نقصان ہو جائے تو آپ پھر آگے کام کرنے کے قابل ہی نہ ہوں پھر ہمارا ڈیم رک جائے گا اس لئے انکو کہتے ہیں کہ تم اپنی انشورنس کروا لوں تاکہ تمھیں بعد میں فنڈ کا مسئلہ نہ ہو
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ