حفظ کے اساتذہ و معلمین اور ان کے لیے مختلف چیلنجز

معلمینِ تحفیظ کے حوالے سے ایک ورکشاپ میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس حوالے سے درج ذیل تحریر قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ یاد رکھیں حفظ کے ایک عام استاذ کو بیک وقت درج ذیل لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے:

1۔ انتظامیہ   2۔ طلبہ   3۔ والدین   4۔ دیگر اساتذہ   5۔ دیگر لوگوں سے تعلقات اور معاشرتی مسائل

کسی بھی استاذ، معلم، محفظ، مجود، قاری صاحب کو ذہنی طور پر ان سب تعلقات کو محسوس کرنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ وہ ان پانچوں سطح پر اپنے حقوق کی وصولی یا فرائض کی ادائیگی میں کس حد تک کامیاب ہے؟

اس تحریر میں میرے مخاطب چونکہ اساتذہ ہیں، اس لیے گفتگو کا انداز اور روئے سخن بھی انہیں کی طرف ہو گا، ہو سکتا ہے، جب میں انتظامیہ یا کسی اور طبقے کو مخاطب کروں، تو اس موضوع کو کسی اور انداز سے زیر بحث لایا جائے۔

انتظامیہ اور استاذ کا تعلق:

ایک استاذ اور معلم کا انتظامیہ کے ساتھ کیا تعلق ہوتا ہے؟ انتظامیہ اس سلسلے کی بنیاد ہے، کیونکہ کوئی بھی استاذ جس ادارے میں تدریس کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے، اس میں اساتذہ، طلبہ اور دیگر تمام ادارہ جاتی ضروریات کی ادائیگی کا بوجھ جن کندھوں پر ہے، اسے ’انتظامیہ’ کہا جاتا ہے۔

گویا کسی بھی استاذ کے لیے کسی ادارے میں تدریس کا موقع فراہم کرنا، ان کے لیے تنخواہ اور سہولیات کا بندوبست کرنا، تعلیمی و رہائشی ضررویات پوری کرنا یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، اس معنی میں انتظامیہ ایک استاذ کے لیے خیر خواہ، محسن اور خادم کے درجے میں ہے۔

اسی طرح جہاں استاذ نے ایک ذمہ داری اٹھائی ہے، وہاں انتظامیہ کی دس ذمہ داریاں ہیں، اس معنی میں ایک منتظم ایک استاذ سے درجے بھی اعلی ہوتا ہے۔

اگر کوئی استاذ کسی انتظامیہ یا منتظم کو اپنا محسن و خیر خواہ، اپنا قائد و لیڈر اور اپنے سے بہتر نہیں سمجھتا، اسے اس ادارے کو تدریس کے لیے بالکل انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایسی صورت میں استاذ ادارے کے نظم و نسق کی پابندی نہیں کر پائے گا اور بہت جلد انتظامیہ اور استاذ میں غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ دراز شروع ہو جائے گا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتظامیہ استاذ کا خیال نہ کرے، اس کی عزت نہ کرے، اس کے حقوق کا خیال نہ رکھے وغیرہ تو کیا کرنا چاہیے؟

اس کا جواب بھی یہی ہے کہ جہاں استاذ انتظامیہ کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے اپنے فرائض پر کاربند نہیں رہ سکتا، اسے وہاں بھی تدریس نہیں کرنی چاہیے اور جہاں انتظامیہ اس کے حقوق کے حوالے سے اپنے فرائض میں کوتاہی کرے، وہاں بھی استاذ کو نہیں رہنا چاہیے۔

استاذ کے حقوق کیا ہیں؟

مناسب وظیفہ یا کفالت، رہائش اور رہن سہن کا مناسب انتظام، عزت و احترام اور اپنی ذمہ داری اور کاموں کی انجام دہی کی آزادی۔

کسی بھی ادارے میں تدریس کی ہامی بھرتے ہوئے، جس طرح انتظامیہ اپنے مطالبات رکھتی ہے، اسی طرح استاذ اور معلم کا یہ حق ہے کہ وہ اسی وقت اپنی ضروریات اور مطالبات کو انتظامیہ کے گوش گزار کر دے اور انتظامیہ کو پیشہ ورانہ اور مخلصانہ انداز سے اپنے استاذ کی ضروریات و مطالبات پر توجہ کرنی چاہیے۔

استاذ اور طلبہ کا تعلق:

استاذ طلبہ کی کارکردگی کا براہ راست ذمہ دار ہوتا ہے، اور اس کا وہ سب سے پہلے اللہ کے ہاں اور پھر مخلوق میں سے انتظامیہ، والدین، طلبہ اور سارے معاشرے کے ہاں ذمہ دار ہے۔ اگر ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھائے تو سب کے شکریے کا مستحق اور اگر کوتاہی کرے گا تو سب کے حق میں کوتاہی کا مرتکب سمجھا جائے گا۔

طلبہ استاذ کے پاس امانت ہوتے ہیں، اس امانت میں خیانت بہت بڑا جرم ہے۔ بچے کا وقت ضائع کروانا، اس کے ساتھ کوئی غیر اخلاقی معاملہ کرنا، اس سے نوکروں اور غلاموں جیسا سلوک کرنا، یہ سب چیزیں امانت میں خیانت کی صورت ہے۔

استاذ طالب علم کے لیے باپ کی مانند اس معنی میں ہوتا ہے کہ جس طرح انسان اپنے بچوں کا خیرخواہ، اور اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے، یہی رویہ اس کو اپنے شاگردوں کے حوالے سے رکھنا چاہیے۔ افسوس کے ساتھ حفظ کے بعض اساتذہ میں اس حوالے سے بہت کوتاہی پائی جاتی ہے، اپنے بچوں کے لیے کچھ اور رویہ اور اصول اور دوسروں کے بچوں کے لیے کچھ اور پیمانے!

استاذ کی طالبعلم پر برتری حقیقی نہیں تشریفی ہوتی ہے، یعنی استاذ کی عزت کا تقاضا ہے کہ طالبعلم اس کو خود سے برتر سمجھے، لیکن استاذ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خود کو طالبعلم سے بہتر یا اولی و افضل سمجھ کر، اس کے ساتھ معاملہ کرے۔ جب ایک استاذ طالبعلم کو بے رحمی سے مارتا، گالی گلوچ کرتا ہے، ذہنی ٹارچر کرتا ہے، اس سے اپنے ذاتی فوائد نکلواتا ہے، تو کیا وہ اپنے استاذ ہونے کا غلط فائدہ نہیں اٹھا رہا ہوتا؟ حالانکہ استاذیت ایک ذمہ داری ہوتی ہے، کوئی ایسا منصب نہیں ہوتا کہ جس کا استعمال کرکے دوسروں کو بلیک میل کیا جائے۔

استاذ اور والدین کا تعلق:

استاذ کے اندر یہ صلاحیت ہونا ضروری ہے کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے، انہیں بچے کی کارکردگی کے حوالے سے مطمئن رکھے اور اگر بچے میں کوئی کوتاہی یا مسئلہ ہے، جس کا تعلق والدین کے ساتھ ہے، تو اس بات کو بھی والدین تک پہنچانا اور انہیں اس کوتاہی کو دور کرنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت استاذ کے اندر ہونا ضروری ہے۔

ہمارے ہاں بعض اساتذہ بہت قابل ہوتے ہیں، بچوں پر محنت بھی کرتے ہیں، لیکن والدین کو مطمئن نہیں کر پاتے، اسی طرح بعض دفعہ بچے کے کچھ گھریلو مسائل ہوتے ہیں، جس وجہ سے بچے کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہوتی ہے، لیکن استاذ میں اتنا حوصلہ اور سلیقہ نہیں ہوتا کہ وہ والدین کو اس کوتاہی پر آگاہ کر سکے۔

استاذ کا بچے کے والدین کے ساتھ بڑا خود داری کا تعلق ہونا چاہیے، حرص طمع لالچ وغیرہ کی نظر سے والدین کو دیکھنا استاذ کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے۔ یہ مسئلہ والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے استاذ کا کس انداز سے کتنا اکرام کرتے ہیں، لیکن استاذ کے لیے بالکل جائز نہیں کہ وہ کسی بھي موقع و مناسبت پر والدین سے ذاتی منفعت کی امیدیں لگائے۔ یہ سب امیدیں اللہ کی ذات کے ساتھ ہونی چاہییں اور مخلوق میں سے اگر کسی سے کوئی مطالبہ کرنا ہے تو وہ انتظامیہ ہے۔

بعض اساتذہ بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ مل کر ادارے اور انتظامیہ کے مخالف سرگرمیاں سر انجام دینا شروع کر دیتے ہیں، یہ بھی اخلاق اور پیشہ ورانہ ہر دو اعتبار سے مناسب رویہ نہیں ہے۔

بعض والدین استاذ کو حقیر سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ زور زبردستی کا معاملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں استاذ کی بھی ذمہ داری ہے کہ جراتمندی اور سمجھداری کے ساتھ اس معاملے کو فیس کرے اور بالکل بلیک میل نہ ہو اور مزید انتظامیہ کے توسط ایسے شریر لوگوں کا سامنا کیا جائے، کیونکہ یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ استاذ کو مکمل تحفظ دیا جائے۔

اساتذہ کا آپس میں رویہ اور سلوک

اداروں میں عموما ایک سے زیادہ اساتذہ فرائض سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ ایک ہی کلاس میں مختلف اساتذہ اور بعض دفعہ مختلف کلاسز میں مختلف معلمین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ استاذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہم منصب اور اور ہم عصر لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے، ادب و احترام اور عزت و وقار ملحوظ خاطر رکھے، ایک دوسرے کی تحقیر، یا حسد و بغض یا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینجںا اور شکایتیں لگانے کی بجائے نصیحت و خیرخواہی کی بنیاد پر معاملہ کرنا چاہیے۔ عمر یا علم کی بنیاد پر کبھی خود کو بڑا اور دوسرے کو حقیر نہ جانیں، بلکہ سنجیدگی متانت اور وقار کے ساتھ پیش آئیں۔

بعض اساتذہ بچوں کے سامنے دوسرے اساتذہ کو زیر بحث لاتے ہیں، ان کی خامیاں اور کوتاہیاں بیان کرتے ہیں، یہ مناسب عمل نہیں ہے۔ اسی طرح بعض اساتذہ آپس میں فری ہو کر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں، جس سے بچون پر برا اثر پڑتا ہے۔

وسعت ظرفی، خیر خواہی، ادب و احترام کو اپنا شعار بنائیں، خود کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی کامیابیوں پر خوش ہوا جائے اور انہیں مبارکباد پیش کی جائے، ان کے اوصاف حسنہ کو اپنے اندر پیدا کیا جائے اور ان کی کوتاہیوں اور خامیون سے سیکھنے کی کوشش کی جائے۔

حفظ کے استاذ کا دیگر لوگوں کے ساتھ تعامل

دیگر لوگوں میں اوپر ذکر کردہ لوگوں کے علاوہ تمام لوگ آ جاتے ہیں، مثلا مسجد کے نمازی، آپ کے ہمسائے اور بالخصوص آپ کے اپنے گھر والے اور رشتہ دار۔

قرآن اور دین کی تعلیم و تربیت بڑا عظیم کام ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے چونکہ معاشرے میں شعور نہیں ہے اور کچھ ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں، جس وجہ سے اس شعبے سے وابستہ لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور مسجد و مدرسہ سے جڑے لوگ اگر دیگر شعبوں کے ساتھ خود کو جوڑ کر دیکھیں تو انہیں کمتری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اس حوالے سے صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے معاملات کو بہتر سے بہتر کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ بنیادی بات یاد رکھیں کہ ہم نے اللہ اور آخرت پر نظر رکھ کر اس شعبے کو اختیار کیا جائے، لہذا اس میں آکر دنیا کی چکاچوند سے متاثر ہونا اور خود کو پریشان کرنا یہ مناسب نہیں ہے۔ اگر کوئی حفظ کا استاذ خود کو اس احساس کمتری سے نہیں نکال پاتا یا اس کی نیت میں اخلاص پیدا نہیں ہو رہا تو اسے جلد از جلد اس کی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ اس فیلڈ کو ترک کر دینا چاہیے، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا بھی ہاتھ نہ آئے اور آخرت بھی داؤ پر لگ جائے اور بقول شاعر

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم


ایک اور طالبعلم کی تکمیلِ حفظِ قرآن کی سعادت