سوال

بعض اوقات حکومت شکار پر پابندی لگا دیتی ہےجیسا کہ آج کل مچھلی کے شکار پر پابندی ہے پانچ یا دس سال کے لیے۔اس دوران جو لوگ کنڈی وغیرہ سے مچھلی کا شکار کر کے بازار میں بیچتے ہیں، اور ہم جا کر اس کو خریدتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟  بعض لوگ جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں، حالانکہ  حکومت کی طرف سے اس کا بھی لائسنس ہوتا ہے۔ جو لوگ بغیر لائسنس کے شکار کرتے ہیں اس شکار کا کیا حکم ہوگا؟ برائے کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

حکومت  اور گورنمنٹ کی  جائز کاموں میں اطاعت کرنا  اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کا خیال کرنا ضروری ہے، کیونکہ کتاب وسنت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے شریعت نے ’اولی الامر‘ یعنی حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔

گورنمنٹ جو شکار کرنے پر پابندی لگا دیتی ہے اور اس کے لئے پرمٹ جاری کرتی ہے  تو ان اصول و قوانین کو ماننا اور اس کی پیروی کرنا ضروری ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔

لیکن اگر کوئی خلاف ورزی کرتے ہوئے مچھلی، تیتر, بٹیر یا مرغابی کا شکار کرتا ہے تو شکار حلال ہے، البتہ قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ضرور ملے گا۔

اسی طرح مچھلی وغیرہ شکار آپ کو کوئی ہدیہ کردے یا آپ بازار سے خریدیں تو  وہ آپ کے لیے حلال ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے  مچھلی جس طریقہ سے بھی پکڑی جائے، گناہ ان کے لیے ہوگا جنہوں نے ناجائز طریقے سے  پکڑی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ